سن دو ہزار ایک میں بیت اللہ محسود گروپ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف
فوجی آپریشن راہ نجات کے نتیجے
میں محسود قبائل کو اپنے علاقوں سے دربدر
کرکے نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا۔
سولہ سال تک دربدری کے بعد سن دوہزار سولہ،سترہ میں ان محسود قبائل کی
آبادکاری کیلئے محسود قبائل کے آبائی علاقے فوج کی طرف سے کلیر قرار دے کر کھول
دئے گئے ۔اور ان قبائل کو اپنے اپنے علاقوں میں بھیج دیا گیا۔
اسی اثناء میں ایک چھوٹی سے تنظیم محسود تحفظ مومنٹ کے
نام سے محسود قبیلے کے مشکلات کیلئے حتی الوسع بھاگ دوڑ کرتی تھی۔ منظور پشتون اس مومنٹ میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرتے
تھے۔اور مقامی انتظامیہ اور فوج کے ساتھ اکثر انکے مسائل کے حل کیلئے مشترکہ اجلاس
ہوا کرتے تھے۔
محسود قبائل کی اپنے علاقوں میں واپسی کے ساتھ ہی وہاں
پر مختلف مسائل نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا۔جس میں سب سے اہم بات انسانی ضروری
وسائل کی کمی تھی۔ صحت و تعلیم کے حوالے سے مختلف مسائل پیش آنے لگے۔
سن دو ہزار سترہ میں عید الفطر کے موقع پر دس سال سے کم عمر کے کئی بچے پہلی بار اپنے گاؤں میں عید کی خوشیاں منانے کیلئے قریبی
میدان میں کھیلنے کیلئے نکلے۔ ابھی انہوں نے کھیلنا شروع ہی کیا تھا کہ زمین
دھماکوں سے پھٹنے لگی اور ان کی ان میں چھ بچے اس دار فانی سے کوچ کرگئے ،اور باقی
بچے ماہی بے آب کی طرح زخمی حالت میں زمین پر تڑپنے لگے۔
چونکہ عید الفطر کا پہلا دن تھا ،اسلئے یہ خبر جنگل کی
آگ کی طرح پھیل گئی ۔یہاں تک کہ پشاور میں صحافیوں کے گروپوں میں یہ بات زیر بحث
نظر آئی۔
کچھ کچھ لوگ بھنبھنانے لگے کہ یہ علاقے تو آرمی نے کلیر قرار دئے تھے تو پھر یہ بارودی سرنگوں کا پھٹنا کیسا۔۔۔۔؟
کچھ کچھ لوگ بھنبھنانے لگے کہ یہ علاقے تو آرمی نے کلیر قرار دئے تھے تو پھر یہ بارودی سرنگوں کا پھٹنا کیسا۔۔۔۔؟
کیا لینڈ مائینز کلیئر کرنے میں غفلت برتی گئی یا کوئی اور وجہ تھی۔
بہرحال اسکو تقدیر کا فیصلہ قرار دے کر سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
لیکن چند دن بعد پھر ایک دوسرے مقام پر بارودی سرنگ پھٹ گئے۔اور پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔
بہرحال اسکو تقدیر کا فیصلہ قرار دے کر سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے۔
لیکن چند دن بعد پھر ایک دوسرے مقام پر بارودی سرنگ پھٹ گئے۔اور پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔
عید الفطر کے
ٹھیک دو مہینوں بعد تک کوئی ساٹھ کے قریب بچے ان سرنگوں کا شکار ہوچکے تھے۔
اور بے شمار لوگ زخمی حالت میں اپنے اعضاء سے محروم ہسپتالوں میں علاج معالجے کیلئے پڑے تھے۔
اور بے شمار لوگ زخمی حالت میں اپنے اعضاء سے محروم ہسپتالوں میں علاج معالجے کیلئے پڑے تھے۔
تقریبا عید
الفطر کے تین یا چار مہینے بعدمنظور پشتون نے وزیرستان کے قبائل کے ایک سرکردہ راہنماء اور
ضرب عضب آپریشن کے دوران متحرک کردار ادا
کرنے والے اور دن رات قوم کی خدمت میں
کوشاں بندےسے رابطہ کیا اور انکو اپنے
علاقے کے دکھوں کی کہانی سناتے ہوئے اعلیٰ
فوجی سربراہان تک مسئلہ پہنچانے کی
درخواست کی۔
اس قبائلی راہنماء نے فورا آرمی چیف اور خفیہ ادارے کے سربراہان سے بلواسطہ اس مسئلے پر توجہ کی درخواست کی۔
لیکن آگے سے جواب یہ ملا کہ بارودی سرنگیں ہماری مجبوری ہے۔ کیونکہ رات کے اندھیرے میں طالبان کے دوبارہ حملوں کا خطرہ ہوتا ہے۔لھذا ہم ان بارودی سنگوں کے صفائی کے حق میں نہیں ہیں۔
چنانچہ یہ جواب منظور پشتون تک پہنچا دیا گیا کہ موجودہ صورت حال میں تو باردوی سرنگوں سے جان چھڑوانا مشکل ہے۔کیونکہ عسکری ادارے اِسکے ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں۔
پشتون نے کہا کہ یہ جو میری قوم دن بدن اسکا نشانہ بن رہی ہے تو ہم کدھر جائیں۔۔۔۔!!!
بہرحال مسئلہ حل ہونے کے بجائے بگڑنے لگا،اور وزیرستان کے اندر چھوٹے موٹے احتجاج ہونے لگے ،جس کی وجہ سے کبھی کبھار فوج کی طرف سے پکڑدھکڑ بھی ہوجاتی۔
اس قبائلی راہنماء نے فورا آرمی چیف اور خفیہ ادارے کے سربراہان سے بلواسطہ اس مسئلے پر توجہ کی درخواست کی۔
لیکن آگے سے جواب یہ ملا کہ بارودی سرنگیں ہماری مجبوری ہے۔ کیونکہ رات کے اندھیرے میں طالبان کے دوبارہ حملوں کا خطرہ ہوتا ہے۔لھذا ہم ان بارودی سنگوں کے صفائی کے حق میں نہیں ہیں۔
چنانچہ یہ جواب منظور پشتون تک پہنچا دیا گیا کہ موجودہ صورت حال میں تو باردوی سرنگوں سے جان چھڑوانا مشکل ہے۔کیونکہ عسکری ادارے اِسکے ہٹانے کے حق میں نہیں ہیں۔
پشتون نے کہا کہ یہ جو میری قوم دن بدن اسکا نشانہ بن رہی ہے تو ہم کدھر جائیں۔۔۔۔!!!
بہرحال مسئلہ حل ہونے کے بجائے بگڑنے لگا،اور وزیرستان کے اندر چھوٹے موٹے احتجاج ہونے لگے ،جس کی وجہ سے کبھی کبھار فوج کی طرف سے پکڑدھکڑ بھی ہوجاتی۔
اس بیچ میں کئی بار منظور پشتون بھی گرفتار ہوا لیکن
میڈیا و مقامی پریشر کی وجہ سے ،اور کوئی ٹھوس جرم نہ ہونے کی وجہ سے رہا ہوجاتا۔
علاقے میں آہستہ آہستہ فوج کے سخت روئے ،چیک پوسٹوں پر ترش روئی اور معمولی
بات پر بھی جسمانی سزائیں جیسے گاڑی کے نیچے
سے رینگ کر دوسری طرف نکلنا، سڑک
کنارے مرغا بنانا،بے جا مار پیٹ وغیرہ کے واقعات ریکارڈ پر آنے لگے۔
سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور چھوٹے کلپس بھی گردش کرنے لگے۔
سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر اور چھوٹے کلپس بھی گردش کرنے لگے۔
فوج کی طرف
سے دہشت گردی کے الزامات سے کلیر قرار دے
کر جاری کردہ وطن کارڈ کے بغیر آمد ورفت
پر پابندیاں،گھروں پر رات کے اندھیروں میں چھاپے،چھاپوں کے دوران چادرو چاردیواری
کو پامال کیا جانا،اور کئی کئی دن تک کلیر شدہ متاثرین کو گھروں سے باہر محصور کیا
جانا،خواتین کے سامنے انکے فیملی ممبرز پر انسانیت سوز تشدد کے واقعات کی شکایات مقامی لوگوں کی طرف سے آنے لگی۔
مقامی لوگ ان ملٹری آپریشنوں کے دوران کئی بار مظاہروں
میں اپنے گھر بار اور کاروباری مراکز و
دوکانوں کے لوٹے جانے اور ماریکٹوں
،دوکانوں کو بلاوجہ مسمار کرنے کی شکائت
کرتے تھے۔
مقامی تاجروں کے مطابق صرف شمالی وزیرستان میں بیس ہزار کے قریبا دوکانوں کو لوٹ کر بلڈوز کیا گیا تھا۔
واپس جانے والے متاثرین کے بقول ہم نے فوج کے آسرے پر بھرے گھربار چھوڑے تھے،لیکن واپسی پر ہمیں سامان سے مکمل خالی گھر ملے۔
بلکہ یہاں تک کہ چھت کے پنکھے بھی اتار کے لے گئے تھے۔
چنانچہ ایک شکائتی ماحول بن چکا تھا۔ اور لوگ نجی مجالس میں ان باتوں کا کثرت سے ذکر کرتے تھے۔
مقامی تاجروں کے مطابق صرف شمالی وزیرستان میں بیس ہزار کے قریبا دوکانوں کو لوٹ کر بلڈوز کیا گیا تھا۔
واپس جانے والے متاثرین کے بقول ہم نے فوج کے آسرے پر بھرے گھربار چھوڑے تھے،لیکن واپسی پر ہمیں سامان سے مکمل خالی گھر ملے۔
بلکہ یہاں تک کہ چھت کے پنکھے بھی اتار کے لے گئے تھے۔
چنانچہ ایک شکائتی ماحول بن چکا تھا۔ اور لوگ نجی مجالس میں ان باتوں کا کثرت سے ذکر کرتے تھے۔
بارہا جرگہ ممبران کی طرف سے کئی میٹینگز میں گورنر خیبر پشتون خواہ اور مقامی آرمی ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل رینک کے جنرل آف کمانڈز سے ملاقاتوں میں ان مشکلات کو وضاحت اور تفصیل سے پیش کیا گیا۔
یہاں تک کہ وفاقی وزراء اور ملکی سٹیک ہولڈرز کے سامنے ان باتوں کو رکھا گیا۔لیکن ہر بار نتیجہ صفر ہوتا۔
سولہ سالہ آپریشن کے بعد بھی ہفتے میں ایک یا دو بار
فوجی قافلوں کی آمد ورفت کے موقع پر سخت کرفیو لگانا،اور کاروبار زندگی کو مکمل
معطل کئے جانے پر مقامی لوگ شکائت کنندہ تھے ۔

اور یہ سب قانون کے آنکھوں کے نیچے ہو رہا تھا۔کئی بندوں نے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی،لیکن (نامعلوم فرشتے) آڑے آجاتے ۔یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک ایس ایس پی رینک کے پولیس آفسر راو انور نے چار سو پچاس کے قریب پشتون نوجوانوں کو مختلف بہانوں سے قتل کردیا تھا۔
کہتے ہیں کہ راو انور پشتون نوجوانوں کو چلتے پھرتے چیک کہتے تھے،جو کسی بھی وقت کیش ہوسکتے ہیں۔

یہ لاوا اس وقت پھوٹ پڑا جب ایک سٹائیلش اور فوج سے محبت رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کو مذہبی دہشت گردی کے الزام میں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔
٭٭٭٭باقی اگلی قسط میں ملاحظہ کیجئے ٭٭٭
pk urdu news
جواب دیںحذف کریںurdu news in pakistan
daily news pakistan in urdu
pakistani urdu news
latest news in pakistan urdu
urdu news paper pakistan
pak urdu news
pakistani urdu news papers
latest news of pakistan in urdu
pk news urdu
urdu news from pakistan
current news in urdu pakistan
pakistan news live in urdu
urdu news.com
pakistan news paper in urdu
pk urdu news
urdu news in pakistan
daily news pakistan in urdu
pakistani urdu news
latest news in pakistan urdu
urdu news paper pakistan
pak urdu news
pakistani urdu news papers
latest news of pakistan in urdu
pk news urdu
کوڈ حاصل کرنے کیلئے شکل پر کلک کیجئے
اشکال تبصرے میں داخل کرنے سے پہلے ایک بار سپیس ضرور دیں۔شکریہ