سُنا تو ہم نے کئی لوگوں سے تھا لیکن جیسا کہ عربی مقولہ ہے کہ (لیس الخبر کالمعاینہ) یعنی خبر معاینہ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ،اسی لئے ہم بھی اسکی صحیح خوبصورتی کا ادراک نہ کرسکے۔
لیکن اس موسم گرما میں ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ کیوں نا ہم بھی اسکی خوبصورتی کے عینی شاہدین بن جائیں،اس لئے اس جانب سفر کا پروگرام بنایا۔
چنانچہ ایک ساتھ ساتھی کی گاڑی میں جانے کی ترتیب بنائی تو اچانک اسکی طرف سے اطلاع ملی کہ جناب آج سہ پہر تین بجے اسکی خوبصورتی دیکھنے کیلئے نکلنا ہے۔
چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ سفر بھی ہو اور کیمرہ بھی نا ہو تو پھر مزہ ہی کیا ہے، چانچہ جلدی جلدی کیمرہ ریڈی کردیا،اور اسکو بھی اپنا ہمسفر بنا لیا۔
لوجی تعریفیں تو اتنی کردی اور نام تک بتانا بھول گئے ،تو ہاں ہم وادی ناران کی بات کر رہے ہیں۔
کوشش یہی ہوگی کہ اس بار تحریری مضمون کے بجائے تصویری مضمون ہوجائے تاکہ اگر براہراست نہ ہو تو کم ازکم تصویری دیدار تو آپ بھی کرسکیں۔تو آئیے پہلے اپنے گلی سے شروع کرتے ہیں۔جس دن ہم نکل رہے تھے تو اس سے چند منٹ قبل کافی بارش ہوئی تھی جس کے سبب مطلع صاف تھا۔
جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آم اور خربوزے فروخت کرنے والی گلی کے سرے میں ہی کھڑے تھے،اسلئے انکو بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔
باہر روڈ کی طرف نکلا تو چند منٹ ٹیکسی کا انتظار کرنا پڑا،سامنے دیکھا تو خیبر ایجنسی کے پہاڑ سینہ تھان کر کھڑے نظر آئے ۔جنکو کیمرے کی آنکھ نے دیکھا تو محفوظ کئے بنا صبر نہ ہوسکا۔
پشاور سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کافی سرسبز و شاداب درخت ہیں، جنکے سبب نا صرف سفر کافی خوشگوار اور پرلطف ہوتا ہے بلکہ تازہ اور ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے پھیپڑے بھی تازہ ہوجاتے ہیں۔پشاور سے باہر نکلنے کے بعد نوشہرہ سے اٹک تک دریائے کابل اور جی ٹی روڈ ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جسکی ایک جھلک اس ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اکوڑہ خٹک کے بعد دریائے کابل اور دریائے سوات درمیان میں ایک جزیرہ سا بن جاتا ہے، اس جزیرے کو حکومت نے ایک تفریحی مقام میں تبدیل کیا ہے اور اسکا نام کُنڈ پارک رکھا ہے۔لیکن اٹک سے ذرا پہلے دونوں دریا آپس میں دوبارہ مل جاتے ہیں ۔ہم نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کردی اور قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔
ایک ساتھی دریا کنارے اُترتے ہوئے
دریائے کابل کا ایک خوبصورت نظارہ اور ذیل میں کنڈ پارک کے چند مناظر

دریائے کابل اور دریائے سوات کے ملاپ اور سامنے نظر آنے والے اٹک کے پہاڑ آپ اس ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ایبٹ آباد سے پہلے سرسبز پہاڑ کی ایک جھلک صاف نظر آرہی ہے۔چونکہ ہم شام ایبٹ آباد پہنچے اور رات ہم نے بالاکوٹ میں گزارنی تھی اسلئے تاریکی کے سبب یہ علاقے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہ ہوسکے۔ہاں ایبٹ اباد سے پہلے آنے والے ایک ندی پر بنے پُل کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں
رات بالاکوٹ میں گزارنے کے بعدصبح تازہ دم ہوکر کیمرے کے کمالات پھر سے شروع ہوگئے۔وہ علاقہ جہاں ہم نے رات گذاری،اور ساتھ میں اسکے اردگرد کے پہاڑی سلسلے۔
مانسیرہ سے بالاکوٹ اور بالاکوٹ سے کاغان تک دریائے کنہار کنارےسڑک کافی اچھی حالت میں ہے،ہاں کبھی کبھی لینڈ سلائیڈنگ کے سبب بند ہوجاتی ہے۔راستے میں پہاڑوں کی خوبصورتی اور دور سے نظر آتے برف سے ڈھکے پہاڑی چوٹیوں کا منظر دید کے قابل ہے۔
بالاکوٹ کے بعد کاغان کی طرف جاتے ہوئے سڑک پر معمولی لینڈ سلائیڈنگ کی منظر والی ویڈیو۔
جیسے کہ پہلے بتایا کہ بالاکوٹ کے بعد ناران تک دریائے کنہار سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی ہے،اور لوگوں نے اسکو پیدل پار کرنے کیلئے لکڑی کے پُل بنائے ہیں۔
اس علاقے میں ہموار زمین کافی کم ہے اسلئے لوگوں نے پہاڑ وں کے دامن میں اپنے گھر بنائے ہوئے ہیں۔
موسم گرما میں ان علاقوں میں سڑک کنارے اپکو کئی لکڑیوں کے ڈبے نظر آئیں گے،اور قریب ہی ایک خیمہ بھی نصب ہوگا۔لیکن ان ڈبوں کو ہاتھ نہیں لگانا،ورنہ پہلوان بننے کے ذمہ دار ہم نہیں ہونگے کیونکہ یہ ڈبے شھد کی مکھیوں والے ڈبے ہیں ،جو کہ اس علاقے کے سرسبز ونایاب درختوں کا رس چوس کر ہمارے لئے شھد بناتے ہیں۔
جیسے جیسے کاغان کے قریب پہنچیں گے توآپکو برف پوش پہاڑی چوٹیاں نظر آئیں گی۔
کاغان کے علاقے میں بنا ایک ریسٹورنٹ
کاغان و ناران کے علاقے میں جتنےبھی گاڑیوں کے پُل دریائے کنہار پر بنے ہیں وہ سب لوہے کے ہیں۔جن میں سے سب سے پہلے پُل کو ذیل کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کاغان پہنچنے سے قبل ہم نے ایک خوبصورت منظر یہ دیکھا کہ موسم سرما میں پہاڑ سے برف سلائیڈنگ ہوئی تھی جو کہ سیدھا سڑک کو بلاک کرکے دریائے کنہار میں گر گئی تھی۔پھر حکومت نے صرف سڑک پر سے برف ہٹائی تھی تاکہ ٹریفک جاری رہ سکے اور باقی برف ویسے کی ویسے پڑی تھی ، جو کہ ایک جاذب نظر منظر پیش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی بچے چھوٹے چھپر سے بنا کر سٹے (جوار) فروخت کر رہے تھے۔
بعض بچوں نے برف کو درمیان میں سے ہٹا کر ایک چھوٹا سا خانہ بنایا ہوا تھا،جس میں چوس کے ڈبے رکھے ہوئے تھے تاکہ قدرتی برف سے ٹھنڈے ہوسکیں۔نیز جو برف نیچے سے پگھل رہی تھی تو اسمیں ان بچوں نے سافٹ ڈرنکس کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ،جو کہ برف کے پانی سے یخ بستہ پڑی تھیں۔ ویڈیوز ذیل میں ملاحظہ کیجئے گا۔
سڑک کے پاس ہی بہتا ہوا دریائے کنہار
برف پوش چوٹیوں سے برف پگھلنے کے بعد پانی ندی کی شکل اختیار کرتا ہوا
لو جی کیمرے نے نخرے دکھانے شروع کردئے ،بیٹری ختم ہونے لگی تھی جس کے سبب اب کافی محتاط ہو کر کفایت شعاری کے ساتھ تصاویر نکالنا شرع کی۔
ایک معمولی پہاڑی سے جیسے ہی اتریں تو ایک بہت بڑی خیمہ بستی نظر آئے گی،لیکن کوئی بورڈ وغیرہ نہیں لگا کہ جس سے علاقے کی شناخت ہوسکے۔ہم تو جب بالکل خیموں کے درمیان ٹریفک میں پھنس گئے تب معلوم ہوا کہ یہی ناران ہے۔لو جی کیمرہ ناران کی خیمہ بستی کو اپنی آنکھ میں محفوظ کرنے کا موقع گنوا بیٹھا۔
خیر جناب سڑک سیدھی آگے جاتی ہے اور ناران کے بعد بھی کافی صحت افزاء اور قابل دید مقامات ہیں ،جیسے لالہ زار وغیرہ۔
لیکن ہم نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کردی اور جھیل سیف الملوک کی طرف جانے کا منصوبہ بنایا تو لوگوں نے بتایا کہ جھیل کی طرف اپنی گاڑی لے جانا ناممکن ہے اسلئے کسی جیپ کا بندوبست کرلو۔
چنانچہ ایک جیپ والے سے دو ہزار روپے میں آنے جانے کا طے کیا اور ہم جیپ میں سوار ہوگئے۔راستہ کافی پُرپیچ ہے،اور جیپ میں بیٹھ کر بھی انسان کا انگ انگ ہِل جاتا ہے۔نیز جھیل جانے والا راستہ کچا اور تنگ ہے اسلئے بار بار رکنا پڑتا ہے تاکہ سامنے سے آنے والی گاڑی گذر سکے۔
جھیل والے راستے میں بھی ایک بہت بڑا برفانی تودا گر گیا ہے ،جسکو کاٹ کر راستہ بنایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ تودا وقفے وقفے سے راستے میں گِرتا رہتا ہے ،جسکو فورا کاٹ کر راستہ صاف کیا جاتا ہے۔ ویڈیو یہاں ملاحظہ کیجئے۔
لو جی اخرکار ہم جھیل سیف الملوک پہنچ گئے۔
جھیل کے پاس ہی پہاڑوں پر چرنے والے خچر
جب ہم جھیل کی طرف جا رہے تھے تو سامنے سے ایک جیپ آنے لگی جس نے دن میں ہیڈ لائیٹس بلائی ہوئی تھیں ، بعد میں معلوم ہوا کہ اس گاڑی میں ایک پنجاب سے انے والے سیاح کی لاش تھی۔ ہم بھی حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا،تو جب ہم جھیل پہنچے تو لوگوں نے بتایاکہ پنجاب سے آنے والے تین دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ جھیل سے جس جگہ پانی کا اخراج ہوتا ہے ،تو اس ندی کو ہم نے پار کرنا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ ایک تو جھیل کا پانی کافی یخ ہے کیونکہ اطراف کی برف پگھل کر اسکا پانی اسی جھیل میں آتا ہے ،نیز ایک پانی کی رفتار کافی تیز ہے اور اُس پر یہ کہ وہ بڑی چٹانیں مسلسل پانی کے بہاؤ کے سبب پھسلن والی ہوگئی ہیں۔
لیکن پھر بھی دو ساتھیوں نے تو اس پانی کو پار کیا لیکن تیسرا اس پانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اب جھیل سے پانی نکلتے ہی فورا کافی تیزی سے نا صرف چٹانوں سے ٹکراتا ہے بلکہ فورا نیچے کی طرف بہنے لگتا ہے،جس کے سبب لاش کو پکڑنے میں کافی دقت محسوس ہوئی تھی ،لیکن بالاخر لاش کو پانی کے پہاڑ سے نیچے گرانے سے بچا لیا گیا تھا۔
یہ تو رہا ہمارے سیاحت کا اخری مقام اور اسکے بعد اب واپسی بھی تھی اسلئے چند گھنٹے جھیل کنارے گذارنے کے بعد ہم واپس ناران آگئے جہاں ایک ہوٹل میں 800 روپے پر ہمیں مرغی کڑائی کھلائی گئی جو کہ شائد تاریخ کی مہنگی مرغی کڑائی تھی،کیونکہ ہمارے ہاں پشاور میں نارمل ریٹ 500 روپے سے اوپر نہیں ہے۔
وہ ہوٹل جہاں ہم نے کھانا کھا یا،بالکل دریائے کنہار کے کنارے ہے،بلکہ ہوٹل کیا ہے بس چند خیمے لگائے ہوئے ہیں۔ملاحظہ کیجئے
اخر میں یہی کہونگا کہ واقعی ناران کا علاقہ جنت نظیر ہے اور بندہ اگر کبھی اسطرف جانے کا منصوبہ بنائے تو چند دن ضرور گذارے تاکہ حقیقی طور پر اس علاقے کے حسن سے لطف اندوز ہو۔
صاحب! کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو۔
جواب دیںحذف کریںتصاویر و ویڈیو دیکھ کر اور مختصر سفرنامہ پڑھ کر مزہ آیا۔ ویسے آپ کو لالہ زار بھی جانا چاہئے تھا۔ بہت پرسکون جگہ ہے اور میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ جھیل کے راستے میں گلیشئر سدابہار ہے۔ میں جب بھی جھیل پر گیا تو راستے میں گلیشئر ضرور ہوا۔ ان لڑکوں کی حرکت جان کر افسوس ہوا اور دعا ہے کہ فوت ہو جانے والے کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
اب تو ناران میں اتنا رش ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے پورا پاکستان آمڈ آیا ہے۔ پوری خیمہ بستی آباد ہو جاتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے سیزن کے حساب سے دیکھا جائے تو کڑائی مہنگی نہیں تھی۔ :-P
بہت عمدہ جناب،
جواب دیںحذف کریںکئی بار ناران اور کاغان کا پروگرام بنا لیکن قسمت ۔۔۔۔
بہت مزا آیا یہ سب کچھ دیکھ اور جان کر
جواب دیںحذف کریںسیر کرانے کا شکریہ۔ تاریخ کی مہنگی ترین کڑاہی کا سواد بھی تو اعلی ہی آیا ہو گا
جواب دیںحذف کریںڈاکٹر صاحب کسی دن
بِناءپروگرام کے روانہ ہوجائیں ،شائد اس طرح کچھ بن جائے
جواب دیںحذف کریںہاں ہوٹل والو نے بھی بتایا تھا کہ صرف ہمیں 600 کی مرغی ملتی ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اتنی مہنگی بھی نہیں۔اگلی بار ناران سے آگے جانے کا منصوبہ ضرور بنائیں گے ان شاءاللہ
جواب دیںحذف کریںہم نے سیف الملوک میں بچوں کے پیمپر تیرتے دیکھے ھیں۔
جواب دیںحذف کریںکیا آپ نے بھی ؟؟؟
ہاہاہاہاہا

جواب دیںحذف کریںکیا آپکو یقین ہے کہ وہ صرف بچوں کے ہی تھے
ویسے ہم نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا۔
بھائی جی بہت خوبصورت تحریر اور اس سے زیادہ خوبصورت مناظر
جواب دیںحذف کریںبہت مزا آیا تصاویر اور ویڈیو کا نظارہ کر کے
ماشااللہ آپ نے بلاگ کو چار چاند لگا دئے ہیں
بیٹھے بیٹھے کاغان کی اس مختصر مگر خوبصورت سیر کا شکریہ، بہت خوبصورت تصاویر لی ہیں آپ نے !!
جواب دیںحذف کریںبہت خوبصورت منظر واہ اچھی سیر کروائی ۔۔۔
جواب دیںحذف کریںناران کی سیر کیمرے کے کلک اور اپنےلفظوں کی مٹھاس سے کرانے کا بہت شکریہ ۔ شاید اسی شیرینی کی کمی تھی میری "پریوں کی وادی " میں ۔ شکریہ
جواب دیںحذف کریںhttp://noureennoor.blogspot.com/2013/07/blog-post_4.html
نورین تبسم:
جواب دیںحذف کریںبلاگ پر خوش آمدید ۔پسندیدگی کا شکریہ۔اسی طرح حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو مزید کاوشیں بھی ہونگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ
Zaber dast sir G.....
جواب دیںحذف کریںYar Mujay be apnay sath Lay jatay Narran, Kaghan.....
کوڈ حاصل کرنے کیلئے شکل پر کلک کیجئے
اشکال تبصرے میں داخل کرنے سے پہلے ایک بار سپیس ضرور دیں۔شکریہ