تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 7 جولائی، 2013

یاران بَطرف ناران

اتوار, جولائی 07, 2013
سُنا تو ہم نے کئی لوگوں سے تھا لیکن جیسا کہ عربی مقولہ ہے کہ  (لیس الخبر کالمعاینہ) یعنی خبر معاینہ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا ،اسی لئے ہم بھی اسکی صحیح خوبصورتی کا ادراک نہ کرسکے۔

لیکن اس موسم گرما میں ساتھیوں نے پروگرام بنایا کہ کیوں نا ہم بھی اسکی خوبصورتی کے عینی شاہدین بن جائیں،اس لئے اس جانب سفر کا پروگرام بنایا۔

چنانچہ ایک ساتھ ساتھی کی گاڑی میں جانے کی ترتیب بنائی تو اچانک اسکی طرف سے اطلاع ملی کہ جناب آج سہ پہر تین بجے اسکی خوبصورتی دیکھنے کیلئے نکلنا ہے۔
چلتے چلتے مجھے خیال آیا کہ سفر بھی ہو اور کیمرہ بھی نا ہو تو پھر مزہ ہی کیا ہے، چانچہ جلدی جلدی کیمرہ ریڈی کردیا،اور اسکو بھی اپنا ہمسفر بنا لیا۔

لوجی تعریفیں تو اتنی کردی اور نام تک بتانا بھول گئے ،تو ہاں ہم وادی ناران کی بات کر رہے ہیں۔

کوشش یہی ہوگی کہ اس بار تحریری مضمون کے بجائے تصویری مضمون ہوجائے تاکہ اگر براہراست نہ ہو تو کم ازکم تصویری دیدار تو آپ بھی کرسکیں۔تو آئیے پہلے اپنے گلی سے شروع کرتے ہیں۔جس دن ہم نکل رہے تھے تو اس سے چند منٹ قبل کافی بارش ہوئی تھی جس کے سبب مطلع صاف تھا۔

SAM_1896

جیسے ہی گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ آم اور خربوزے فروخت کرنے والی گلی کے سرے میں ہی کھڑے تھے،اسلئے انکو بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا۔

SAM_1897 
باہر روڈ کی طرف نکلا تو چند منٹ ٹیکسی کا انتظار کرنا پڑا،سامنے دیکھا تو خیبر ایجنسی کے پہاڑ سینہ تھان کر کھڑے نظر آئے ۔جنکو کیمرے کی آنکھ نے دیکھا تو محفوظ کئے بنا صبر نہ ہوسکا۔

SAM_1899

پشاور سے اٹک تک جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کافی سرسبز و شاداب درخت ہیں، جنکے سبب نا صرف سفر کافی خوشگوار اور پرلطف ہوتا ہے بلکہ تازہ اور ٹھنڈی ہوا میں سانس لینے سے پھیپڑے بھی تازہ ہوجاتے ہیں۔پشاور سے باہر نکلنے کے بعد نوشہرہ سے اٹک تک دریائے کابل اور جی ٹی روڈ ساتھ ساتھ چلتے ہیں،جسکی ایک جھلک اس ویڈیو میں دیکھی جا سکتی ہے۔



اکوڑہ خٹک کے بعد دریائے کابل اور دریائے سوات  درمیان میں ایک جزیرہ سا بن جاتا ہے، اس جزیرے کو حکومت نے ایک تفریحی مقام میں تبدیل کیا ہے اور اسکا نام کُنڈ پارک رکھا ہے۔لیکن اٹک سے ذرا پہلے دونوں دریا  آپس میں دوبارہ مل جاتے ہیں ۔ہم نے سڑک کنارے گاڑی کھڑی کردی اور قدرتی نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔

SAM_1903

ایک ساتھی دریا کنارے اُترتے ہوئے

SAM_1904

SAM_1905

دریائے کابل کا ایک خوبصورت نظارہ اور ذیل میں کنڈ  پارک کے چند مناظر

SAM_1907

SAM_1908

SAM_1910
دریائے کابل اور دریائے سوات کے ملاپ اور سامنے نظر آنے والے اٹک کے پہاڑ آپ اس ویڈیو میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔



SAM_1917

ایبٹ آباد سے پہلے سرسبز پہاڑ کی ایک جھلک صاف نظر آرہی ہے۔چونکہ ہم شام ایبٹ آباد پہنچے اور رات ہم نے بالاکوٹ میں گزارنی تھی اسلئے تاریکی کے سبب یہ علاقے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ نہ ہوسکے۔ہاں ایبٹ اباد سے پہلے آنے والے ایک ندی پر بنے پُل کی ویڈیو یہاں ملاحظہ کرسکتے ہیں



رات بالاکوٹ میں گزارنے کے بعدصبح تازہ دم ہوکر کیمرے کے کمالات پھر سے شروع ہوگئے۔وہ علاقہ جہاں ہم نے رات گذاری،اور ساتھ میں اسکے اردگرد کے پہاڑی سلسلے۔

SAM_1931

SAM_1928

SAM_1926

SAM_1927

SAM_1929

SAM_1930

SAM_1932

SAM_1933

مانسیرہ سے بالاکوٹ اور بالاکوٹ سے کاغان تک دریائے کنہار کنارےسڑک کافی اچھی حالت میں ہے،ہاں کبھی کبھی لینڈ سلائیڈنگ کے سبب بند ہوجاتی ہے۔راستے میں پہاڑوں کی خوبصورتی اور دور سے نظر آتے برف سے ڈھکے پہاڑی چوٹیوں کا منظر دید کے قابل ہے۔

SAM_1943

SAM_1944

SAM_1946

SAM_1945

SAM_1948

SAM_1949

SAM_1950

SAM_1938

بالاکوٹ کے بعد کاغان کی طرف جاتے ہوئے سڑک پر معمولی لینڈ سلائیڈنگ کی منظر والی ویڈیو۔



جیسے کہ پہلے بتایا کہ بالاکوٹ کے بعد ناران تک دریائے کنہار سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی ہے،اور لوگوں نے اسکو پیدل پار کرنے کیلئے لکڑی کے پُل بنائے ہیں۔

SAM_1956

SAM_1952

SAM_1964

SAM_1963

SAM_1965

اس علاقے میں ہموار زمین کافی کم ہے اسلئے لوگوں نے پہاڑ وں کے دامن میں اپنے گھر بنائے ہوئے ہیں۔

SAM_1982

SAM_1983

SAM_1984

SAM_1985

SAM_1987

موسم گرما میں ان علاقوں میں سڑک کنارے اپکو کئی لکڑیوں کے ڈبے نظر آئیں گے،اور قریب ہی ایک خیمہ بھی نصب ہوگا۔لیکن ان ڈبوں کو ہاتھ نہیں لگانا،ورنہ پہلوان بننے کے ذمہ دار ہم نہیں ہونگے کیونکہ یہ ڈبے شھد کی مکھیوں والے ڈبے ہیں ،جو کہ اس علاقے کے سرسبز ونایاب درختوں کا رس چوس کر ہمارے لئے شھد بناتے ہیں۔

SAM_1988

جیسے جیسے کاغان کے قریب پہنچیں گے توآپکو برف پوش پہاڑی چوٹیاں نظر آئیں گی۔

SAM_1968

SAM_1970

SAM_1972

SAM_1977

SAM_1978

SAM_1979

SAM_1980

SAM_1981

کاغان کے علاقے میں بنا ایک ریسٹورنٹ

SAM_1957

SAM_1958

کاغان و ناران کے علاقے میں جتنےبھی گاڑیوں کے پُل دریائے کنہار پر بنے ہیں وہ سب لوہے کے ہیں۔جن میں سے سب سے پہلے پُل کو ذیل کی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے۔






کاغان پہنچنے سے قبل ہم نے ایک خوبصورت منظر یہ دیکھا کہ موسم سرما میں پہاڑ سے برف سلائیڈنگ ہوئی تھی جو کہ سیدھا سڑک کو بلاک کرکے دریائے کنہار میں گر گئی تھی۔پھر حکومت نے صرف سڑک پر سے برف ہٹائی تھی تاکہ ٹریفک جاری رہ سکے اور باقی برف ویسے کی ویسے پڑی تھی ، جو کہ ایک جاذب نظر منظر پیش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی بچے چھوٹے چھپر سے بنا کر سٹے (جوار) فروخت کر رہے تھے۔

بعض بچوں نے برف کو درمیان میں سے ہٹا کر ایک چھوٹا سا خانہ بنایا ہوا تھا،جس میں چوس کے ڈبے رکھے ہوئے تھے تاکہ قدرتی برف سے ٹھنڈے ہوسکیں۔نیز  جو برف نیچے سے پگھل رہی تھی تو اسمیں ان بچوں نے سافٹ ڈرنکس کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں ،جو کہ برف کے پانی سے یخ بستہ پڑی تھیں۔ ویڈیوز ذیل میں ملاحظہ کیجئے گا۔










SAM_2029

SAM_2026

SAM_2024



SAM_2034

SAM_2033


سڑک کے پاس ہی بہتا ہوا دریائے کنہار

SAM_2028

برف پوش چوٹیوں سے برف پگھلنے کے بعد پانی ندی کی شکل اختیار کرتا ہوا

SAM_2023

لو جی کیمرے نے نخرے دکھانے شروع کردئے ،بیٹری ختم ہونے لگی تھی جس کے سبب اب کافی محتاط ہو کر کفایت شعاری کے ساتھ تصاویر نکالنا شرع کی۔

ایک معمولی پہاڑی سے جیسے ہی اتریں تو ایک بہت بڑی خیمہ بستی نظر آئے گی،لیکن کوئی بورڈ وغیرہ نہیں لگا کہ جس سے علاقے کی شناخت ہوسکے۔ہم تو جب بالکل خیموں کے درمیان ٹریفک میں پھنس گئے تب معلوم ہوا کہ یہی ناران ہے۔لو جی کیمرہ ناران کی خیمہ بستی کو اپنی آنکھ میں محفوظ کرنے کا موقع گنوا بیٹھا۔

خیر جناب سڑک سیدھی آگے جاتی ہے اور ناران کے بعد بھی کافی صحت افزاء اور قابل دید مقامات ہیں ،جیسے لالہ زار وغیرہ۔

لیکن ہم نے  گاڑی پارکنگ میں کھڑی کردی اور جھیل سیف الملوک کی طرف جانے کا منصوبہ بنایا  تو لوگوں نے بتایا کہ جھیل کی طرف اپنی گاڑی لے جانا ناممکن ہے اسلئے کسی جیپ کا بندوبست کرلو۔

چنانچہ ایک جیپ والے سے دو ہزار روپے میں آنے جانے کا طے کیا اور ہم جیپ میں سوار ہوگئے۔راستہ کافی پُرپیچ ہے،اور جیپ میں بیٹھ کر بھی انسان کا انگ انگ ہِل جاتا ہے۔نیز جھیل جانے والا راستہ کچا اور تنگ ہے اسلئے بار بار رکنا پڑتا ہے تاکہ سامنے سے آنے والی گاڑی گذر سکے۔

جھیل والے راستے میں بھی ایک بہت بڑا برفانی تودا گر گیا ہے ،جسکو کاٹ کر راستہ بنایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ تودا وقفے وقفے سے راستے میں گِرتا رہتا ہے ،جسکو فورا کاٹ کر راستہ صاف کیا جاتا ہے۔ ویڈیو یہاں ملاحظہ کیجئے۔


لو جی اخرکار ہم جھیل سیف الملوک پہنچ گئے۔

SAM_2052


SAM_2048

SAM_2047

SAM_2046

SAM_2045

SAM_2051

SAM_2055

SAM_2057

SAM_2056

جھیل کے پاس ہی پہاڑوں پر چرنے والے خچر

SAM_2059




جب ہم جھیل کی طرف جا رہے تھے تو سامنے سے ایک جیپ آنے لگی جس نے دن میں ہیڈ لائیٹس بلائی ہوئی تھیں ، بعد میں معلوم ہوا کہ اس گاڑی میں ایک پنجاب سے انے والے سیاح کی لاش تھی۔ ہم بھی حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہوگیا،تو جب ہم جھیل پہنچے تو لوگوں نے بتایاکہ پنجاب سے آنے والے تین دوستوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ جھیل سے جس جگہ پانی کا اخراج ہوتا ہے ،تو اس ندی کو ہم نے پار کرنا ہے۔

اب بات یہ ہے کہ ایک تو جھیل کا پانی کافی یخ ہے کیونکہ اطراف کی برف پگھل کر اسکا پانی اسی جھیل میں آتا ہے ،نیز ایک پانی کی رفتار کافی تیز ہے اور اُس پر یہ کہ وہ بڑی چٹانیں مسلسل پانی کے بہاؤ کے سبب پھسلن والی ہوگئی ہیں۔

لیکن پھر بھی دو ساتھیوں نے تو اس پانی کو پار کیا لیکن تیسرا اس پانی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔اب جھیل سے پانی نکلتے ہی فورا کافی تیزی سے نا صرف چٹانوں سے ٹکراتا ہے بلکہ فورا نیچے کی طرف بہنے لگتا ہے،جس کے سبب لاش کو پکڑنے میں کافی دقت محسوس ہوئی تھی ،لیکن بالاخر لاش کو پانی کے پہاڑ سے نیچے گرانے سے بچا لیا گیا تھا۔



یہ تو رہا ہمارے سیاحت کا اخری مقام اور اسکے بعد اب واپسی بھی تھی اسلئے چند گھنٹے جھیل کنارے گذارنے کے بعد ہم واپس ناران آگئے جہاں ایک ہوٹل میں 800 روپے پر ہمیں مرغی کڑائی کھلائی گئی جو کہ شائد تاریخ کی مہنگی مرغی کڑائی تھی،کیونکہ ہمارے ہاں پشاور میں نارمل ریٹ 500 روپے سے اوپر نہیں ہے۔

وہ ہوٹل جہاں ہم نے کھانا کھا یا،بالکل دریائے کنہار کے کنارے ہے،بلکہ ہوٹل کیا ہے بس چند خیمے لگائے ہوئے ہیں۔ملاحظہ کیجئے

SAM_2061

SAM_2060

SAM_1999

SAM_1997

اخر میں یہی کہونگا کہ واقعی ناران کا علاقہ جنت نظیر ہے اور بندہ اگر کبھی اسطرف جانے کا منصوبہ بنائے تو چند دن ضرور گذارے تاکہ حقیقی طور پر اس علاقے کے حسن سے لطف اندوز ہو۔

14 تبصرے:

  1. صاحب! کیوں دل جلانے کی بات کرتے ہو۔ :-)
    تصاویر و ویڈیو دیکھ کر اور مختصر سفرنامہ پڑھ کر مزہ آیا۔ ویسے آپ کو لالہ زار بھی جانا چاہئے تھا۔ بہت پرسکون جگہ ہے اور میری پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ جھیل کے راستے میں گلیشئر سدابہار ہے۔ میں جب بھی جھیل پر گیا تو راستے میں گلیشئر ضرور ہوا۔ ان لڑکوں کی حرکت جان کر افسوس ہوا اور دعا ہے کہ فوت ہو جانے والے کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔
    اب تو ناران میں اتنا رش ہوتا ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے پورا پاکستان آمڈ آیا ہے۔ پوری خیمہ بستی آباد ہو جاتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے سیزن کے حساب سے دیکھا جائے تو کڑائی مہنگی نہیں تھی۔ :-P

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت عمدہ جناب،
    کئی بار ناران اور کاغان کا پروگرام بنا لیکن قسمت ۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت مزا آیا یہ سب کچھ دیکھ اور جان کر

    جواب دیںحذف کریں
  4. سیر کرانے کا شکریہ۔ تاریخ کی مہنگی ترین کڑاہی کا سواد بھی تو اعلی ہی آیا ہو گا :)

    جواب دیںحذف کریں
  5. ڈاکٹر صاحب کسی دن :)بِناءپروگرام کے روانہ ہوجائیں ،شائد اس طرح کچھ بن جائے

    جواب دیںحذف کریں
  6. ہاں ہوٹل والو نے بھی بتایا تھا کہ صرف ہمیں 600 کی مرغی ملتی ہے۔اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اتنی مہنگی بھی نہیں۔اگلی بار ناران سے آگے جانے کا منصوبہ ضرور بنائیں گے ان شاءاللہ

    جواب دیںحذف کریں
  7. ہم نے سیف الملوک میں بچوں کے پیمپر تیرتے دیکھے ھیں۔
    کیا آپ نے بھی ؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں
  8. ہاہاہاہاہا
    کیا آپکو یقین ہے کہ وہ صرف بچوں کے ہی تھے :) :) :)
    ویسے ہم نے ایسا کوئی منظر نہیں دیکھا۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. بھائی جی بہت خوبصورت تحریر اور اس سے زیادہ خوبصورت مناظر
    بہت مزا آیا تصاویر اور ویڈیو کا نظارہ کر کے
    ماشااللہ آپ نے بلاگ کو چار چاند لگا دئے ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  10. بیٹھے بیٹھے کاغان کی اس مختصر مگر خوبصورت سیر کا شکریہ، بہت خوبصورت تصاویر لی ہیں آپ نے !!

    جواب دیںحذف کریں
  11. بہت خوبصورت منظر واہ اچھی سیر کروائی ۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. ناران کی سیر کیمرے کے کلک اور اپنےلفظوں کی مٹھاس سے کرانے کا بہت شکریہ ۔ شاید اسی شیرینی کی کمی تھی میری "پریوں کی وادی " میں ۔ شکریہ
    http://noureennoor.blogspot.com/2013/07/blog-post_4.html

    جواب دیںحذف کریں
  13. نورین تبسم:
    بلاگ پر خوش آمدید ۔پسندیدگی کا شکریہ۔اسی طرح حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو مزید کاوشیں بھی ہونگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ

    جواب دیںحذف کریں
  14. Zaber dast sir G.....
    Yar Mujay be apnay sath Lay jatay Narran, Kaghan.....

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1