تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 25 اپریل، 2015

بنی گالا میں دھرنا

ہفتہ, اپریل 25, 2015
ان کے قدموں میں خواتین ملازمین نے دوپٹے  رکھ دئے اور اپنا فیصلہ واپس لینے کی التجاء کی ،لیکن اس نے نہایت غرور و تکبر سے ان ماؤں بیٹیوں کے دوپٹوں کو پاؤں سے روندا اور  گاڑی میں سوار ہوئے۔جیسے ہی ڈرائیور نے گاڑی مین گیٹ کی طرف بڑھا دی توخواتین ملازمین نے مین گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر انکو کو کہا 
"ہمارے اوپر گاڑی چڑھالیں اور اسکے بعد آپ اس جگہ سے نکل سکیں گے"۔

یہ منظر 24 مارچ 2015  کی شام عمران خان کے بنی گالا میں واقع گھر میں دیکھا گیا۔جہاں وزارت محنت و افرادی قوت کے ماتحت ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ہزاروں ملازمین گذشتہ دو ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں اور انہوں نے صوبائی حکومت کے ایک فیصلے کے خلاف عمران خان کے گھر کے سامنے دھرنا دے کر احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں،چنانچہ عمران خان نے انکے مسئلے کے حل کیلئے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو بلایا،لیکن پرویز خٹک نے ملازمین کے مطالبات ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے اپنے فیصلہ سُنا دیا۔

ورکرز ویلفیئر بورڈ وفاقی محکمہ وزارت محنت (ورکرز ویلفیئر فنڈ) کے تعاون سے خیبر پختون خواہ میں محنت کشوں اور فیکٹریوں کے ملازمین کیلئے مختلف قسم کے سہولیات مہیا کرنے والا ایک ادارہ ہے۔18 ویں ترمیم کے بعد اس کے انتظامی امور صوبوں کو سونپ دئے گئے۔

سابقہ صوبائی وزیر محنت شیراعظم وزیر
یہ ادارہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے زمانے میں مزدوروں کے فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا گیا تھا۔لیکن اسکے بعد سے لیکر 2008 تک خیبر پختونخواہ کی سطح پر اس محکمے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔  سابقہ ادوار میں اس محکمے کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ورکرز ویلفیئر بورڈ خیبر پختونخواہ کے ماہانہ اخراجات چند لاکھ روپوں سے آگے نا بڑھ سکے۔ چنانچہ مزدوروں کے بچوں کیلئے تعلیم،صحت،فوتگی،جہیز فنڈز نہ ہونے کے برابر فراہم کئے جاتے تھے۔ 

2008 کے پیپلز پارٹی کے دور میں جب یہ محکمہ بنوں سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایم پی ائے شیر اعظم وزیر کو سونپ دیا گیا،تو انہوں نے اس محکمے کو ترقی اور وسعت کی راہوں پر ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

چنانچہ صوبائی وزیر محنت شیر اعظم وزیر صاحب نے لیبرز کے بچوں کیلئے قائم کردہ ورکنگ فوکس گرائیمر سکولوں کو نا صرف ہائیر سیکنڈری تک اپگریڈ کیا ،بلکہ صوبے میں ان سکولوں کا جال بچھا دیا۔  صوبہ بھر میں جہاں جہاں کارخانے اور فیکٹریاں موجود تھیں،ان تمام علاقوں میں نئے ورکنگ فوکس سکول قائم کئے گئے ،اور کیڈٹ کالجز کے طرز پر ان سکولوں کی عمارتیں تعمیر گئیں۔

اسی طرح شیراعظم صاحب نے ملازمین کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافہ کیا۔ جہیز فنڈ،ڈیتھ گرانٹ وغیرہ کی رقم کئی گُنا زیادہ کردی گئی۔ ملک کی معروف یونیورسٹیوں میں لیبرز کے بچوں کیلئے ادارے کی جانب سے لاکھوں روپوں کے سکالر شپ فراہم کرکے انکو فری تعلیم کا موقع دیا گیا،جس سے ہزاروں مزدوروں کے بچے مفت فراہم کردہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مشغول ہوگئے۔
چنانچہ ان اقدامات کے بعد ورکرز ویلفیئر بورڈ اپنی عروج پر پہنچنے لگا،اور ایک اندازے کے مطابق ادارے کا ماہانہ بجٹ 12 کروڑ روپوں تک جا پہنچا۔

ورکنگ فوکس گرائیمر ہائیر سیکنڈری  سکول خیبر پختونخواہ
پرانے سکولوں کے اپگریڈیشن اور نئے سکولوں کے قیام سے ہزاروں ملازمتیں  بھی وجود میں آگئی۔ چونکہ ورکرز ویلفیئر بورڈ نیم خودمختار سرکاری ادارہ تھا،اور اسکی اپنی گورننگ باڈی تھی لھذا نئے ملازمین کے بھرتی کیلئے پبلک سروس کمیشن یا این ٹی اس کے بجائے ڈیپارٹمنٹل ٹسٹ رکھا گیا۔اور تین تین سال کے قابل توسیع کنٹریکٹ پر ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ 

چنانچہ اس ترتیب سے ہزاروں نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کی گئی،اور صوبے پر بے روزگاری کا بوجھ کافی حد تک کم ہوگیا۔

لیکن جیسے ہی پیپلز پارٹی کی دور حکومت کا اختتام ہوا،تو ویلفیئر بورڈ ایک بار پھر تنزلی کی طرف بڑھنے لگا۔
کئی کئی مہینے ملازمین کو تنخواہوں کی عدم فراہمی، مزدوروں کے سکالرشپس اور دیگر گراٹنس میں بےجا تاخیر و کٹوتی،اور ایمپلائیز پر مختلف الزامات لگا انکو نوکری سے برطرفی جیسے مسائل روز کا معمول بن گئے۔

تحریک انصاف کے موجودہ دور حکومت میں جب یہ محکمہ اُس وقت کے اتحادی شیرپاؤ گروپ کے حوالے کیا گیا توصوبائی وزیر محنت بخت بیدار صاحب نے نا صرف ادارے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کیا بلکہ ملازمین کو بھی مختلف بہانوں سے تنگ کرکے پیسے بٹورنے شروع کئے۔

خواتین ملازمین کے ساتھ ناروا اور ہیجان انگیز روئے کے سبب جلد ہی بخت بیدار کا نام ہر کسی کے زبان پر آنے لگا۔
چنانچہ تحریک انصاف نے بدنامی سے بچنے کیلئے شیرپاؤ گروپ سے اتحاد توڑ کر محکمہ اپنے ایم پی ائے شاہ فرمان کے حوالے کردیا۔

وزیراعلیٰ پرویز خٹک
چونکہ ورکرز ویلفیئر بورڈ ہزاروں ملازمتوں سے مالا مال ادارہ تھا، اسلئے تحریک انصاف کی نظریں اسی محکمے پر ٹک گئی۔
دیگر محکموں کی طرح ویلفیئر بورڈ میں بھی کامل شفافیت موجود نہیں تھی،چنانچہ پہلے پہل تو ملازمین کی ڈگریاں نیب کے ذریعے چیک کروائی گئی، تھرڈ ڈویژن، جعلی ڈگریوں اور اوؤر ایج  سینکڑوں ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔

 کنٹریکٹ پر تعینات ملازمین کا تین سالہ دورانیہ اختتام تک پہنچنے لگا تو انکےکنٹریکٹ میں دوبارہ 6،6 ماہ کی توسیع کی گئی۔

حالیہ دنوں مین جب ملازمین نے اپنے لئے سروس سٹرکچر اور مستقلی کا مطالبہ کیا تو جناب وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ پرویز خٹک صاحب اور صوبائی وزیر محنت شاہ فرمان نے ملازمین کیلئے این ٹی ایس ٹسٹ پاس کرنے کی شرط رکھ دی اور الزام لگایا کہ یہ سب غیر قانونی طور پربھرتی شدہ ملازمین ہیں۔ 

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ جناب پرویز خٹک صاحب نے نا صرف ان ملازمین پر سیاسی اور غیرقانونی طور پر بھرتی ہونے کا الزام لگایا ،بلکہ انہوں نے میڈیا کے سامنے اس بات کا اعلان  کیا کہ ہم صوبے میں کہیں بھی غیرقانونی بھرتی نہیں ہونے دیں گے،اور ناہی خود کوئی غیر قانونی کام کریں گے۔

یاد رہے کہ 24 مارچ کی شام جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک اوراحتجاجی ملازمین کے صدور کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے تو وزیراعلیٰ نے صاف کہہ دیا کہ
بحث کی ضرورت نہیں ،ٹسٹ دینا ہوگا۔میری مرضی جس کو پاس کروں اور جس کو فیل کروں۔
دھرنا ختم کرو،ورنہ نوشہرہ سے اپنے بندے بلوا کر یہ دھرنا ختم کروا دونگا۔

احتجاجی ملازمین،جن میں اکثریت اساتذہ کی ہے
ملازمین کی طرف سے جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ ہم غیرقانونی بھرتی شدہ نہیں،بلکہ ہم نے ڈیپارٹمنٹل ٹسٹ و انٹرویو کلیئر کرکے ہی نوکری پائی ہے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ملازم کو ٹسٹ انٹرویو کے بعد ملازمت پر رکھ دیا جائے اور وہ تین چار سال ملازمت بھی کرلے،اسکے بعد ان ملازمین سے دوبارہ ٹسٹ انٹرویو کا مطالبہ کیا جائے۔کیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہورہی کہ اپنے من پسند آفراد کو چھوڑ کر باقی ملازمین کو ناجائز طور برطرف کرنے کا موقع تلاش کیا جا رہا ہے؟

ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ہم سے این ٹی ایس (نیشنل ٹسٹنگ سروس) کے ذریعے ٹسٹ لینا چاہتی ہے ،جبکہ این ٹی ایس ایک پرائیویٹ ادارہ ہونے کے ناطے ہمیں اسکی شفافیت پر کوئی اعتماد نہیں۔ان ملازمین کے بقول ٹسٹ کے بعد صوبائی وزراء اپنے بندوں کی لسٹیں این ٹی ایس والوں کے سپرد کرکے انکو پاس کرادیتے ہیں۔اور باقی ملازمین کو فیل ڈکلیئر کروا دیتے ہیں۔

چنانچہ وریلفیئر بورڈ کے ایک 17 گریڈ کے سبجیکٹ سپیشلسٹ زاہد خان کے بقول کیا یہ ممکن ہے کہ 
ایک ادارے کا راہنماء پاکستانی ہو
مسلمان ہو
حکومتی اداروں کی معاونت سے اسکا ذاتی ادارہ چلتا ہوں
ہر روز حکومت کی طرف سے اسکو پراجکٹس دی جاتی ہوں 

طلباء بھی اساتذہ کے حقوق کیلئے میدان میں۔
میں کیسے یہ اعتماد کر لوں کہ وہ بندہ حکومتی اہلکاروں اور صوبائی حکومت کے وزراء کو ناراض کر کے انکے مقابلے میں مجھے انصاف پر مبنی نتیجہ دے سکتا ہے۔

جعلی ڈگریوں کے الزام کے جواب میں  ملازمین نےکہا کہ ہماری ڈگریاں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کلیئر قرار دے چکی ہیں اور نیب ویریفیکیشن میں بھی ہم سرخرو ہوئے ہیں۔نیز ہم میں سے اکثر ایم فل و پی ایچ ڈی کے طلباء ہیں،تو کس طرح ہماری ڈگریوں کو جعلی کہا جا رہا ہے؟


 ویلفیئر بورڈ ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جن کی عمریں ملازمت کے حصول کے وقت مناسب تھیں ،لیکن ابھی اگر انکو نکال لیا گیا تو اوور ایج ہوجانے کے سبب ان پر سرکاری نوکریوں کے دروازے تک بند ہوچکے ہیں۔
معمارِوطن بنی گالا دھرنے میں تھک ہار کر سڑک کنارے نیند کی وادی میں

یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ملازم اسی محکمے میں تین چار سالوں سے نوکری کر رہا ہے ،اور اب جب کہ اسکی عمر زیادہ ہوگئی تواسکو نکال کر دوبارہ ٹسٹ انٹرویو کیلئے کہا جا رہا ہے۔ ایسے ملازمین پر تو عمر بھر کیلئے سرکاری ملازمت کے دروازے بند کردئے گئے۔

احتجاجی ملازمین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ادارے میں ہمارا کئی سالوں سے تجربہ ہوچکا ہے،اسلئے ہمیں نکال کر نئے بندوں کو ملازمت پر رکھنا بھی ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔

احتجاجی ملازمین گذشتہ دو ہفتوں سے بنی گالا میں عمران خان صاحب سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دھرنا دئے ہوئے ہیں۔گرمی و بارشوں میں بھی انکے عزم میں کوئی کمی نظر نہیں آئی۔بلکہ مرد ملازمین کے ساتھ ساتھ خواتین ملازمین بھی دھرنے میں برابر شریک ہیں۔

ان میں سے اکثریت ورکنگ فوکس سکولوں کے اساتذہ اور استانیوں کی ہے۔ جن کے ساتھ اپنے سکولوں کے بچے بھی دھرنے میں شریک ہیں۔ 

احتجاجی دھرنے میں شریک عطاءاللہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا عمران خان نے ذاتی طور پر بھی آپکے مسئلے کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی ہے؟

لیبر منسٹر شاہ فرمان
تو عطاء اللہ نے جواب دیا کہ عمران خان صوبائی وزیر محنت شاہ فرمان یا وزیراعلیٰ کوبنی گالا اپنے گھر بلوا لیتے ہیں اور پھر خود منسٹر لیبر شاہ فرمان یا وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو یہ کہہ کر کمرے سے نکل جاتے ہیں کہ ان ملازمین کا مسئلہ حل کردو۔

اور یہ صاف ظاہر ہے کہ جن بندوں (منسٹر لیبر شاہ فرمان و وزیراعلیٰ پرویز خٹک ) نے ہمارے لئے مسائل پیدا کئے ہیں ،وہ کیونکر ہمارے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیں گے۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بعض مواقع پر لیبر منسٹر ہمارے سارے مطالبات مان لیتا ہے لیکن بعد میں ڈرافٹنگ میں ردوبدل کیجاتی ہے، جس  میں ہمارا کوئی مطالبہ بھی حل نہیں ہوا ہوتا۔


سننے میں آرہا ہے کہ موجودہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کیلئے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے  میں اپنوں کو خفیہ طریقے سے نوازنے کیلئے بھی صوبائی حکومت ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کو برطرف کروانا چاہتی ہے،تاکہ اپنے من پسند لوگوں کو ملازمت دی جا سکے۔

صورت حال یہ ہے کہ احتجاجی ملازمین نے عمران خان کے گھر کے دونوں راستے بند کئے ہیں،اور ملازمین کا کہنا ہے کہ جب تک ہمارے مسائل کو احسن طریقے سے حل نہیں کئے جائیں گے،تب تک ہم یہاں دھرنا دیں گے ،اگرچہ دھرنا دینے میں ہم عمران خان کا ریکارڈ ہی کیوں نا توڑ دیں۔ اگر عمران 126 دن دھرنا دے سکتا ہے تو ہم اس سے بھی طویل عرصے تک دھرنا دیں گے۔






11 تبصرے:

  1. یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی، جو انہوں نے بویا وہی کاٹیں گے، اگر اگلی بار انکی حکومت پورے ملک مین بن بھی گئی تو انکو عوام صرف دھرنے ہی نہیں دے گی، جوتے بھی مارے گی، کیوں کہ انہوں نے دعوے فرشتون جیسے کئے ہوئے ہین اور بندے وہی باقی پارٹیوں جیسے چوول رکھے ہوئے ہین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ
      راجہ افتخار خان صاحب
      مجھے نہیں لگتا کہ انکو پورے ملک میں حکومت ملے۔انکو تو خیبر پختونخواہ میں ہی دوبارہ حکومت ملے تو کافی ہے۔

      حذف کریں
  2. حیرت کی بات ہے۔ میڈیا پر ایسی کوئی خبر نظر سے نہیں گزری۔ ورنہ یہ تو کافی سنگین مسئلہ ہے۔ این ٹی ایس ٹیسٹ کے بارے میں پہلے سے کافی شکوک و شبہات لوگوں کے ذہنوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ این ٹی ایس میں کسی سرکاری بندے کا ذاتی مفاد ہے، ورنہ اتنا اصرار سمجھ سے باہر ہے۔

    اللہ رحم کرے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ہارون اعظم صاحب
      بلاگ پر خوش آمدید :)
      میڈیا پر مختلف چینلز پر کچھ معمولی سی خبریں چل چکی ہیں۔لیکن مکمل کوریج ابھی تک اس معاملے کو نہیں دی گئی۔ہاں کبھی کبھی ٹی وی پر نیچے والی پٹی چل جاتی ہے۔
      ڈیلی موشن وغیرہ پر بھی الیکٹرانگ میڈیا نے اس واقعے سے متعلق چند ویڈیو کلپس نشر کئے ہیں۔

      آپ کا اٹھایا ہوا سوال واقعی اہم ہے کہ سابقہ ملازمین کیلئے خاص بلدیاتی انتخابات کے اس اہم موقع پر دوبارہ این ٹی ایس پر اس قدر اصرار شکوک و شبہات کو ہوا دے رہا ہے۔ $-)

      حذف کریں
  3. تحریکِ انصاف کی ہردلعزیزی کا پہلا ثبوت تو چھاؤنیوں میں مقامی حکمتی انتخابا کی صورت میں آ گیا ہے ۔ حالانکہ چھؤنیوں مین سُنا تھا کہ تحریک انصاف کا طوطی بولتا ہے ۔ اپنی حکومت کے صدرمقام پشاور میں تحریک انصاف نے 5 میں سے 2 نشستیں حاصل کی ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سر افتخار اجمل بھوپال صاحب
      شفقت کیلئے ممنون ہوں.
      آپکی اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ پئ ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے.وجہ یہی ہے جو اوپر کے بلاگ پوسٹ سے عیاں ہے.

      تازہ ترین اطلاعات کے مطابق عمران کے نمائندے دھرنے میں بار بار آکر واپس چلے جاتے ہیں.

      آج آیک بندے نے ٹیلیفونک رابطے پر بتایا کہ کے پی کے حکومت نے میڈیا کو پیسے دئے ہیں,جس کی وجہ سے دھرنے کو کوریج نہیں دی جاتی۔

      حذف کریں
  4. آپ نے حق قلم ادا کردیا۔ بے شک موجودہ حکومت بھی اُسی ڈگر پر چل پڑی ہے جس کی ان سے توقع نہیں کی جارہی تھی۔ اُس وقت کے وزیر محنت جناب شیر اعظم صاحب ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ تھے جو ایک ادارے کو چلانے کے اُصول اور قواعد و ضوابط سے واقف تھے جبکہ اب اور دیگر وزیر و مشیران صاحبان صرف اور صرف سیاستدان ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ نعیم خان
      دراصل موجودہ حکومت میں بعض ایسے آفراد یا ممبران ہیں جو کہ درحقیقت انصاف کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
      صرف سیاست دان ہوتے تو بھی اچھی بات ہوتی،جعلی ڈگری والے سیاست دان۔

      حذف کریں
  5. خان صاھب کی لگائی ہوئی آگ ان کے گھر تک پہنچ گئی ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. اس تحریر پر میرا تبصرہ کیا پوسٹ نہیں ہوسکا تھا؟ :(

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1