تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 9 دسمبر، 2011

پولیو قطرے: دوا یا کچھ اور ؟

جمعہ, دسمبر 09, 2011
پاکستان میں پولیو کے قطرے پلانے کے بعد بھی  پولیو کے کیس سامنے آتے ہیں۔

اور یہ بات انتہائی پریشانی کی ہے کہ بعض وکلاء اور ڈاکٹروں نے باقاعدہ
پولیو کے قطروں کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی ۔ لیکن پھر انکو خاموش کرادیا گیا۔


 ذیل کے کالم  انصاری محمد صاحب  نے اردو سائٹ ہماری ویب میں بھی پولیو کے قطروں کے بارے میں وضاحت کی گئی ۔ لھذا پڑھیئے اور سر دھنئے۔

(بشکریہ انصاری محمد صاحب اور  ہماری ویب)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام و مسلم دشمن عناصر کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کی جڑیں کاٹ کر صفحہٴ ہستی سے ہمیشہ کے لئے انہیں مٹا دیا جائے۔

مسلمانوں کو مجبور ومقہور بناکر ان پر حکومت کرنے کے لئے ان کو مختلف محاذوں پر کمزور کردیا جائے، مثلاً ایمان واسلام، معیشت واقتصادیات، فوجی قوت، افرادی قوت اور اخلاقی قوت وغیرہ ۔ ایمان واسلام کا جنازہ تو پہلے ہی سے مسلمانوں کے دلوں سے نکال دیا گیا ہے۔ رنگ ڈھنگ، چال ڈھال، شکل وشباہت غرض یہ کہ قول وفعل کے اعتبار سے اغیار کی تقلید کرتے نہیں تھکتے۔ بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اقتصادیات کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ سارے مسلمان غیر مسلموں کے مقروض اور مجبور ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی فوجی قوت کو کمزور کرنے کی مہم شروع کی گئی ہے۔

کسی مسلمان ملک کو اجازت نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے لئے جدید اسلحہ کی صورت میں حاصل کریں،

جبکہ ارشاد خداوندی ہے،

”واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم وآخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم“ (سورۃ الانفال: ۶۰)۔

یعنی ”اور مسلمانوں! سپاہیانہ قوت سے اور گھوڑوں کے باندھے رکھنے سے جہاں تک تم سے ہو سکے کافروں کے مقابلے کے لئے ساز وسامان مہیا کئے رہو کہ ایسا کرنے سے اللہ کے دشمنوں پر اپنی دھاک بٹھائے رکھو گے اور نیز ان کے سوا دوسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے اور ان کے حال سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے“۔

مسلمانوں کی اخلاقی قوت کو تباہ وبرباد کردیا گیا ہے، مرد وزن کا اختلاط عام سی بات ہے،

 قرآن کریم کے حکم

 ”وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ“ (الحزاب: ۳۳)

کو حقوق نسواں پر نعوذ باللہ! ڈاکہ اور عورت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے مترادف سمجھ رہے ہیں اور حضورﷺ کا ارشاد، ”بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“ (موطا امام مالک)۔

یعنی ”میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں“ کو بھول گئے ہیں اور سیاحت وروشن خیالی کے نام پر عورتوں کا غیر مردوں کی جھولی میں گرنا اور ان سے بغل گیر ہونے کو روشن خیالی سمجھتے اور اس پر فخر کرتے ہیں، بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی نظر میں ایسے افراد حضور ﷺکے اس قول، ”من تشبہ بقوم فہو منہم“ یعنی ”جس نے کسی قوم سے مشابہت اپنائی وہ انہیں میں سے ہیں“ کا مصداق ہیں۔

اب اغیار کا اگلا ہدف مسلمانوں کی افرادی قوت کا خاتمہ ہے۔ جس کے لئے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔جن میں سے ایک مرحلہ وار اور آہستگی کے ساتھ ویکسین کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کا خاتمہ ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ مسلمان وہ واحد قوم ہے جو تعداد میں سب سے زیادہ ہے،

اب ان لوگوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کی افرادی قوت کو کم کیا جائے۔ اسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پہلے ایک مرض پولیؤ کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور پھر اس کی ویکسین تیار کرکے سپلائی کی جاتی ہے، اور ہم ان کی تقلید میں ہی اپنی فلاح وبہبود ڈھونڈتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اغیار نہ کبھی ہمارا خیرخواہ رہا اور نہ اب ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے، ”یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا الیہود والنصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم“ (سورۃ المائدۃ: ۵۱)۔ یعنی ”اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو اپنے دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کی طرف پھرا وہ انہی میں سے ہے“۔

پولیو ویکسین کیا چیز ہے؟

اس کے کیا نقصانات ہیں؟

اور سائنس اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟

اللہ تعالیٰ بچے کو نر و مادہ کے باہم جنسی ملاپ سے پیدا فرماتاہے۔ نر میں اعضائے تولیدی کو ”ٹیسٹیز“ اور مادہ کے اعضائے تولیدی کو ”اووری“ کہتے ہیں۔ یہ اعضاء نہ صرف تولیدی ہیں بلکہ یہ ”غدود“ کا کام بھی سر انجام دیتے ہیں۔

غدود انسانی جسم کا ایسا جز ہے جس کے ذمہ جسم کے مختلف افعال کو باقاعدہ بناکر انہیں کنٹرول کرنا ہے۔ جیسا کہ ”پٹیوٹری“ غدود انسان کے قد کا ذمہ دار ہے، اگر یہ ٹھیک وقت پر برابر مقدار میں ہا رمونز خارج کرے تو انسان کا قد نارمل ہوگا ورنہ یا تو بہت زیادہ بڑھے گا یا پھر پست رہ جائے گا ۔

 اسی طرح مادہ میں ”اووری“ بھی ایک خاص قسم کا ہارمونز ”اسٹروجن“ خارج کرتی ہے۔ اس ہارمونز کے ذمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام لگا رکھا ہے کہ بچیوں میں عورت ذات والی تمام خصلتیں اور خصوصیات بھردے، اس کے ساتھ اسے نسوانی حسن بخش دے گی۔

 اسی طرح نر میں” ٹیسٹیز“ جو ہارمونز خارج کرتا ہے اسے ”انڈروجن“ کہتے ہیں اور یہ انسانی بچے مردانہ پن پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اگر یہ دونوں غدود صحت مند ہوں گے اور اپنا کام صحیح طور پر سرانجام دیں تو نر (بچہ) میں مردانہ خصوصیات اور مادہ (بچی) میں نسوانی خصوصیات ہوں گی لیکن اگر یہ غدود اپنا کام صحیح طور پر سرانجام نہ دیں اور”اسٹروجن“ اور”انڈروجن“ صحیح مقدار میں پیدا نہ کرسکیں تو پھر پیدا ہونے والے بچے میں بے قاعدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

یہ ویکسین جب شروع سے پلائی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ بچے جب جوان ہوتے ہیں تو اس وقت تک یہ اپنا کام کرچکی ہوتی ہے اب بچہ جوان ہوکر مستقل بانجھ پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ویکسین میں کون سی چیز ملائی جاتی ہے یہ تو ابھی تک زیر تحقیق ہے۔

ڈاکٹر ہاروناکائیٹا جو کہ احمد دبلو یونیورسٹی زاریا میں فارماسوٹیکل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ ہیں، وہ نائیجریا سے ویکسین کے کچھ نمونے تحقیق کے لئے انڈیا لے گئے تاکہ ان میں موجود اجزاء کی جانچ پڑتال ہوسکے، جب ڈاکٹر کائٹانے ان ویکسین کو مختلف ٹیسٹ اور جانچ پڑتال کے مراحل سے گزارا تو اس میں کچھ ایسے مواد کی ملاوٹ کے شواہد ملے جو کہ صحت کے لئے خطرناک ہیں۔

 ڈاکٹر کائٹا نے ہفت روزہ ”کیڈونا ٹرسٹ“ کو ایک انٹرویو میں بتایا،

”ہم نے پولیو کے اس ویکسین میں کچھ ایسی اشیاء دریافت کی ہیں جو صحت کے لئے نقصان دہ اور زہریلی ہیں اور خاص طور پر کچھ ایسی ہیں جو براہ راست انسان کے جنسی نظام تولید پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے خود ہمارے بیچ ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی خباثت اور بدتمیزی کی پشت پناہی کررہے ہیں اور برابر ان کی مدد کررہے ہیں اور مجھے یہ کہہ کر افسوس ہو رہا ہے کہ ان میں کچھ ہمارے اپنے ماہرین بھی شامل ہیں“

 ڈاکٹر کائٹا نے یہ مطالبہ کیا کہ جو لوگ پولیو ویکسین کے نام پر یہ جعلی دوائی در آمد کررہے ہیں، ان کے خلاف دوسرے مجرموں کی طرح مقدمہ چلانا چاہئے اور سزا دینی چاہئے“۔

۱۹۹۵ء میں فلپائن کی آزاد خواتین کی ایک لیگ نے تشنج کے ٹیکوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ جیت لیا تھا اور یونیسف کی اس مہم کو روک لیا تھا۔ اس ویکسین میں ایسی دوائی (Beta-Human Chorionic Gonadotropinیا β-hCG) استعمال کی گئی تھی۔ جس کے استعمال کرنے سے عورت کا حمل مکمل طور پر نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ فلپائن کی سپریم کورٹ نے یہ معلوم کیا کہ تین ملین خواتین کو جن کی عمر ۱۲ سے ۴۵ سال تک تھی پہلے ہی سے یہ ویکسین دی جاچکی تھی۔

عالمی ادارہ صحت کی طرف سے (۲۰جون ۲۰۰۵ء)جاری کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں پولیو کے قطرے پلانے کے باوجود ۵۰۰ سے زائد پولیو کے کیس سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ یمن اور انڈونیشیا جنہیں ۱۹۹۶ء میں پولیو ویکسین کی مہم چلانے کے بعد اس بیماری سے آزاد خطہ قرار دے دیا گیا تھا۔ وہاں پھر سے یہ وبا پھوٹ پڑی ہے۔ یمن میں ۲۴۳ اور انڈونیشیا میں ۵۳ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔

بہت سے محققین نے اس ویکسین کو دراصل دنیا کی آبادی کنٹرول کرنے کا خفیہ مگر انتہائی مؤثر ہتھیار ثابت کیا ہے اور اس حوالے سے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے ہیں۔ ایک خفیہ امریکی دستاویز "NSSMZOO" جو ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی اور ۱۹۸۹ء میں ڈی کلاسیفائی ہوئی۔ اس دستاویز پر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے دستخط ہیں۔ اس دستاویز میں شناخت کئے گئے ممالک میں سے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نائیجریا، انڈونیشیا، برازیل، فلپائن، میکسیکو، تھائی لینڈ، ترکی، ایتھوپیا اور کولمبیا ہیں۔ پاپولیشن کنٹرول اس دستاویز کا مرکزی اور یک نکاتی ایجنڈا ہے۔

۲۹جون ۱۹۸۷ء کو ایک امریکی اخبار نے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر روبرٹ سے بات کی، جن کا کہنا تھا کہ خسرہ کی ویکسین نقصان دہ وائرس سے آلودہ ہیں۔ ۳۰ برس تک نامی گرامی ڈاکٹر چلاتے رہے کہ ہم ”ویکسین“ نامی ٹائم بم سے کھیل رہے ہیں، خسرہ کے ویکسین سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ کینسر کا باعث ہے۔

لندن کے موقر ترین روز نامے دی ٹائمز نے ۱۱مئی ۱۹۸۷ء کو فرنٹ پیج پر اس حوالے سے یہ سرخی لگائی تھی کہ ”خسرہ کے لئے لگائے گئے ٹیکے ایڈز وائرس پھیلا رہے ہیں“۔

عالمی ادارہ صحت کے ایک کنسلٹنٹ نے اپنے ادارہ کو رپورٹ دی کہ زیمبیا، زائرے اور برازیل میں خسرہ ویکسین اور ایڈز وائرس کے پھیلاؤ کے درمیان تعلق کا شبہ تھا۔ تحقیق پر یہ شک وشبہات صحیح نکلے۔ عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ ملنے کے باوجود اسے شائع نہیں کیا۔ برازیل واحد جنوبی امریکی ملک تھا جس نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسین مہم میں حصہ لیا اور پھر یہی ملک ایڈز کا سب سے بڑا شکار بنا۔ پولیو، خسرہ اور ہیپٹائٹس کی ویکسین میں وائرس کی موجودگی کے ثبوت سامنے آچکے ہیں ۔ان میں منگی وائرس جیسا خطرناک وائرس بھی شامل ہے ۔

عالمی ادارہ صحت پر خسرہ ویکسین کے ذریعے ایڈز پھیلانے کے الزامات بھی لگ چکے ہیں۔ ان ٹیکوں کی وجہ سے بانجھ پن ہونا بھی ثابت ہوچکا ہے۔ ویکسین دو ماہ کے بچوں کے لئے قطعاً محفوظ نہیں۔ مگر یہ ویکسین کا شیڈول نومولود کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ نومولود کے وزن، قد اور جسامت جیسے معاملات بالکل نظر انداز کردیئے جاتے ہیں۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ ایک ہی دوائی یا ٹیکہ کسی ایک انسان کے لئے تو قطعی محفوظ ہو سکتے ہیں، مگر دوسرے کے لئے موت کا باعث بھی۔

ویکسین کو بچوں میں ذہنی عوارض کا سبب بھی قرار دیا جاتا ہے۔ پولیو کے قطرے جب پلوانے شروع ہوئے جن بچوں نے یہ استعمال کئے ہیں، یقیناً آج وہ جوان ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہوں گے اور آج کل نوجوانوں کی اکثریت جن امراض میں مبتلا نظر آتی ہے وہ مردانہ امراض ہی ہیں۔ اس ضمن میں مزید جو حقائق دیئے گئے ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔

ہندوستان کے ایک جریدے ”المرشد“ میں پولیو کے قطروں سے متعلق ایک مدلل مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کو پاکستان کی ”اشرف لیبارٹریز“، فیصل آباد کے ترجمان ماہنامہ ”رہنمائے صحت“ کی اشاعت میں شامل کیا گیا۔ جس میں سات سے زائد ایسے کیس ذکر کئے گئے ہیں جن میں بچوں کو پولیو کے قطروں کا کورس مکمل کروایا گیا تھا۔ انہیں اس روک تھام کے باوجود پولیو ہوگیا۔

9 تبصرے:

  1. these are just conspiracy theories. get rid of them. I am med student. I asked my teacher abt this. he said that if this were true then graph should go above after vaccination in that area but this is not the case. The cases you mentioned in Pakistan may not be vaccinated or may have got expired vaccines. Ask experts on this matter.

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت ہی عجیب بات ہے خوراسانی بھائی سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہم مسلمان اس دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں میں نے موضوع پر پہلے بھی کافی کچھ پڑھا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے روک تھام کے لیئے ابھی تک کوئی موئثرحکمت عملی نہیں اپنائی ویسے میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ پاکستان میں یہ دوا زبردستی پلائی جاتی ہے کیا یہ سچ ہے؟ کیونکہ میں پاکستان میں نہیں ہوں اور ابھی چار ماہ پہلے اللہ نے میرے گھر میں رحمت نازل کی ہے مجھے ڈر ہے کہیں اسے بھی یہ قطرے زبردستی نہ پلائے جائيں کیونکہ میں نے تو گھر والوں کو منع کیا ہے کہ میری بیٹی کو کوئی قطرے وطرے نہ پلائے جائيں لیکن معلوم نہیں کیوں مجھے ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کہیں محکمہ بہبود بربادی والے کہیں زبردستی یہ قطرے نہ پلادیں برائے مہربانی اگر کسی کو اس بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ قطرے زبردستی پلائے جاتے ہیں کہ نہیں تو اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اس پر تھوڑا تبصرہ ضرور کرے اور مجھ جیسوں کو ان معلومات سے آگاہ کرے اور آخر میں اللہ سبخانہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی توفیق دے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. محمد شعیب صاحب
    بلاگ پر خوش آمدید
    آپ نے سچ سنا ہے ۔واقعی پاکستان میں بچوں کو زبردستی یہ قطرئے پلائے جاتے ہیں۔اور اگر والدین اسکے پلانے سے انکار کردئے تو انکی گرفتاری نیز E.C.L یعنی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں انکے نام ڈالے جاتے ہیں۔

    اسلئے بہتر تو یہ ہے کہ انکو غلط معلومات فراہم کی جائے کہ ہمارئے گھر بچہ نہیں اور اگر کہیں بچے پر انکی نظر پڑی تو ان سے کہا جائے کہ ابھی چند دن قبل اسکو پلائے گئے ہیں۔ ہے تو جھوٹ لیکن اخر بندہ کرئے کیا۔۔؟؟؟
    (کسی کو اگر اسکے علاوہ کوئی بہانہ آتا ہو کہ بندہ جھوٹ سے بچ جائے تو اسکے مشورئے کا خیر مقدم کرتے ہیں

    بعض مقامات پر تو یہ پولیو والے سکول مین ہی بچوں کو قطرئے پلاتے ہیں۔اب وہاں کون بچوں کو بچائے۔۔؟؟
    ایک بات یہ کہ یہ پولیو کے قطرئے لیبارٹری میں چیک کرنا پاکستان میں جرم ہے اور اسکے سبب بندہ جیل جاسکتا ہے۔

    جن والدین کو یہ اندیشہ ہو کہ بچہ پولیو سے متاثرہ نہ ہوجئے تو میرئے خیال میں کہیں اور سے وہ پولیو ویکسین دئے سکتا ہے لیکن بشرطہ کہ یہ قطرئے ورلڈ ہیلتھ والوں کے نہ ہوں۔یہ میرا ایک ذاتی سوچ ہے جو کہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. اس معاملے میں کچھ شکوک و شبہات ضرور موجود ہیں اگرچہ کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستانی ریاست کا رویہ ( حکومت نہیں ) مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا۔ اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے کہ پاکستانی ریاست ایک عوام دشمن ریاست ہے جہاں وسائل کے ہوتے ہوئے بھی عوام کو جان بوجھ کر تعلیم، صحت ،روزگار اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھ کر ذہنی طور پر پسماندہ رکھا جاتا ہے تاکہ یہ کبھی برسراقتدار اشرافیہ کے لیے خطرہ نا بن سکیں اور نا اس استعماری نظام کے خلاف کوئی آواز اٹھا سکیں۔ ایسی عوام دشمن ریاست جہاں کوئی مر جائے تو گھنٹوں اس کی لاش اٹھانے والا نا ہو۔ جہاں کی پولس مقتولین کی لاشوں کو اپنے تھانوں کی حدود سے باہرپھینکے پر یقیں رکھتے ہوں ۔۔ جہاں لاشیں ساری ساری رات شاہرائوں پر گاڑیوں کے نیچے آکر کچلتی رہیں۔۔ ایسی عوام دشمن ریاست میں پولیو کے سدباب کے لیے ایسی مہمات مجھے بہت زیادہ شک میں ڈال دیتی ہیں۔
    میری دعا ہے کہ کوئی پریشرگروپ ایسا بنے جو ان ویکسین کے نمونے قبضے میں لیکر ایک بار ہی غیر جانبدارانہ تحقیقات کراسکے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. پاکستان ميں تو يہ بات حکومتی سطح پر سامنے آ چکی ہے کہ پوليو کے ناقص قطرے پلائے گئے تھے ۔ اب معلوم نہيں حکومت ايسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرتی ہے يا نہيں
    ميں 1974ء ميں سينئر منيجمنٹ کورس کر رہا تھا ۔ انہی دنوں اقوامِ متحدہ کی ايک ٹيم ضبطِ توليد کے سلسلے ميں پاکستان آئی تھی ہماری کلاس کو بھی ايک ليکچر سے نوازہ گيا ۔
    ليکچر کے بعد ميں نے متعلقہ ايڈوائز جو امريکی تھا سے پوچھا " جو دوائياں آپ يہاں پھيلا رہے ہيں انہيں آپ نے امريکا يا يورپ ميں پھيلايا ؟"
    جوان نہيں ميں ملا ۔
    پھر ميں نے پوچھا "امريکا اور يورپ ميں آپ نے آبادی کے بڑھاؤ کو اس طرح روکا کہ تعليم کو عام کيا ۔ لڑکياں تعليم ميں لگيں تو شادياں گريجوئيشن کے بعد يعنی بڑی عمر ميں ہونے لگيں ۔ آپ جتنے ڈالر ضبطِ توليد کی دوائيوں اور دوسری اشياء پر خرچ کر رہے ہيں وہ ہمارے ملک ميں محکمہ تعليم کو کيوں نہيں ديتے تاکہ يہاں پر بھی ازخود ضبطِ توليد ہو جائے"۔
    اس پر ايڈوائزر کا چہرہ سُرخ ہو گيا اور وہ کچھ نہ بولا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. Very good idea about polio

    جواب دیںحذف کریں
  7. there is nothing wrong in the vaccine .we r using it from 1978 in pakistan and now a days we r 19 billion instead of 5 billion as in 1978.only 5 to 6 persons published against vaccine and whole world is saying that this is harmless.but ...............................................

    جواب دیںحذف کریں
  8. ویکسین پینے والے بچوں میں پولیو کیس بڑھنے کا انکشاف
    http://ummatpublication.com/2012/12/18/news.php?p=news-08.gif

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1