تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 26 اگست، 2014

قصہ مگرمچوں کے تالاب کا

منگل, اگست 26, 2014
عشاء کا وقت تھا، بجلی گئی ہوئی تھی، کمرے میں گھپ اندھیرے اور شدید گرمی کی وجہ سے  ٹہرنا محال تھا۔
 میں روشنی اور ٹھنڈی ہوا کی طلب میں  دوستوں کے ساتھ ہوٹل کے صحن کی طرف  چلا گیا ۔صحن میں ہوٹل ملازمین نے  میزوں کے ارد گرد چارپائیں رکھی ہوئی تھی۔ہم نے بھی ایک میز کے قریب رکھی ہوئی چارپائی پر بیٹھنا پسند کیا ۔ باقی ساتھی بھی  وہیں پا س ہی بیٹھ کر کل کیلئے منصوبہ بندی کرنے لگے۔ چنانچہ ہر بندہ اپنے خیال  کے مطابق مشورہ دے رہا تھا کہ درمیان میں میڈیا کا ذکر بھی آ گیا ۔ میرے پاس ہی بیٹھے ایک دوست نے پیچھے مُڑ کر دیکھا  اور میرے کان میں کہا کہ آپکے پیچھے جو پارٹی بیٹھی ہے تو اس میں ایک بندہ جیو کا نمائندہ ہے،اور رپورٹنگ کے سلسلے میں اس شہر میں مقیم   ہے۔

میں نے جیو کے نمائند ے کے پاس ایک بندے کو بھیجا ،چنانچہ وہ اسکو ہمارے پاس لے آیا۔
جیو کے نمائندے سے علیک سلیک کے بعد میں نے انکا نام پوچھا ،تو انہوں نے اپنا نام رسول بتایا۔شمالی وزیرستان میں  دو قبیلے آباد ہیں ۔ایک وزیر ،دوسرا داوڑ۔
رسول داوڑ
چنانچہ داوڑ قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انکا پورا نام رسول داوڑ تھا۔رسول داوڑ سے میں نے گذشتہ چند دنوں کا احوال پوچھا اور ان چند دنوں میں میڈیا کو درپیش مشکلات کے بارے میں  پوچھا ،تو رسول داوڑ نے بتایا کہ آج تقریبا 8 بار مجھے پیمرا کی جانب سے وارننگ کال موصول ہوئی ہے ،کہ  متاثرین سے متعلق اپنی رپورٹنگ بند کرو ۔
میں نے رسول داوڑ سے پوچھا کہ کیا آپ نے ان کالز کے بعد رپورٹنگ بند کی ،تو انہوں نے کہا کہ بالکل بھی نہیں۔
میں نے کہا کہ  اسکے انجام سے بھی واقف ہو ؟
تو رسول داوڑ نے مجھے بتایا کہ میرا فرض منصبی حقیقی حالات کی رپورٹنگ ہی ہے،مجھے جیو اور جنگ گروپ میں کام پر فخر ہے کہ اتنے دباؤ کے باوجود بھی مجھے متاثرین کی مشکلات کی بھرور کوریج کا موقع دیا جا رہا ہے۔ باقی انجام اللہ کے حوالے۔

قارئین یہ اس دن کا واقعہ ہے جب رمضان سے قبل ہم متاثرین شمالی وزیرستان کی نقل مکانی کے دوران مشکلات کا جائزہ لینے بنوں گئے تھے۔ اور آپ نے جان لیا ہوگا کہ صرف متاثرین کے احوال کی رپورٹنگ پر ایک صحافی کو حکومت کی طرف سے  کس  تنگ کیا گیا۔

چند روز قبل پشاور پریس کلب کی طرف سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا کہ متاثرین شمالی وزیرستان کو بہترین  کوریج دینے والے  شمالی وزیرستان کے صحافیوں کو انعامی سرٹیفیکیٹ دینے کیلئے تقریب منعقد کی گئی ہے ۔لھذا آپ کو بھی شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔
چنانچہ مقررہ وقت پر ہم بھی دوستوں کے ساتھ پریس کلب گئے۔کانفرنس روم میں تقریب  کا انعقاد کیا گیا تھا ،جس میں مختلف شہروں سے لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
اس پروگرام میں بعض مقررین نے کافی اچھی تقریریں کی ۔ لیکن چند ایک مقررین ایسے تھے کہ جنہوں نے بنیادی باتیں  حاضرین محفل کے ساتھ شیئر کیں۔
چنانچہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر جناب صفدر حیات داوڑ نے بتایا کہ فاٹا بالخصوص وزیرستان میں صحافت کی مثال ایسی ہے جیسے مگرمچوں کے تالاب میں ہم کام کر رہے ہوں۔ قدم قدم پر درپیش مشکلات میں ایک ایسی رپورٹ بنانا کہ جس سے سب خوش بھی رہیں اور رپورٹ بھی بن جائے ، کافی جان جوکھوں کا کام ہے۔

انہوں نے ایک واقعہ سُنایا کہ ملک میں جاری حالیہ عسکری کشمکش سے قبل میں ایک بار  شمالی وزیرستان ایجنسی کے تحصیل میرعلی  کے مین بازار میں ایک دوکان کے اندر چند صحافیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اس دوران ایک شخص کو بھرے بازار سے اغوا کیا گیا۔

اب ظاہر ہے کافی بڑا واقعہ تھا ،لیکن اس واقعے کی رپورٹنگ نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا۔کیونکہ اگر یہ لکھتے کہ فلاں مسلح گروپ نے ایک بندے کو اغوا کیا ہے، تو پولیٹیکل انتظامیہ اس گروپ پر ہاتھ یہ کہہ کر ڈالتی کہ ہم نے تو چشم پوشی اختیار کی تھی لیکن صحافیوں نے آپ کے جُرم سے پردہ اُٹھایا ہے۔اور پھر ہم اس مسلح گروپ کے نشانے پر آجاتے۔
اور اگر کہتے کہ فلاں شخص کو اغوا کیا گیا ہے ، تو بھی مغوی کے قبیلے کی طرف سے خدشہ تھا کہ وہ اسکو اپنی بے عزتی نہ سمجھ لے۔
اور اگر لکھتے کہ میرعلی بازار سے اغوا ہوا ہے تو  بھی پولیٹیکل انتظامیہ اس علاقے کے رہائیشیوں کے خلاف 40 ایف سی آر کے تحت  ایکشن لیتی،اور ظاہر ہے اہل علاقہ نے ہماری مخالفت پر کمر بستہ ہوجانا تھا۔
چنانچہ ہماری رپورٹ کچھ یوں بنی کہ نامعلوم افراد نے نامعلوم مقام سے نا معلوم شخص کو اغوا کرلیا۔

صفدر حیات داوڑ
اس واقعے سے فاٹا میں صحافی برادری کو درپیش مشکلات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان سخت حالات میں بھی صحافیوں نے  معیاری رپورٹنگ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ چنانچہ بعض صحافی انہی وجوہات کی بناء پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
میڈیا ایک علاقے کیلئے آنکھ کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔کیونکہ جس طرف میڈیا متوجہ ہوجائے تو تمام توجہ اسی طرف مبذول ہوجاتی ہے اور مسئلے کے حل کیلئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
لیکن آج کل کے دور میں اگر میڈیا نہ ہو تو بڑے سے بڑا واقعہ بھی بے توجہی کے سبب بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے۔اور کوئی اس مسئلے کی حل کیلئے خاطر  خواہ سنجیدگی نہیں دِکھاتا۔
پروگرام سے سنیئرترین قبائلی صحافی جناب سیلاب محسود نے بھی تقریر کی۔انہوں نے موجود ہ حالات میں درست رپورٹنگ کے حوالے سے درپیش مشکلات کے چند واقعات سُنائے کہ کس طرح حالیہ ضرب عضب آپریشن کے موقع پر  ہمیں رپورٹنگ سے روکنے کیلئے رکاوٹیں کھڑی کی گئی،اور پھر پہاڑوں میں دس دس گھنٹے پیدل سفر کے بعد انکی ٹیم متاثرہ علاقوں میں چوری چھپے پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔

سیلاب محسود نے ہمیں بتایا کہ شمالی وزیرستان ایجنسی کے تحصیل میرعلی میں حالیہ ضرب عضب آپریشن سے قبل جن مکانات پر جیٹ تیاروں سے بمباری کی گئی تھی ، تو انکی ٹیم بالکل ان مکانات تک پہنچ گئی۔چنانچہ انہوں نے بتایا کہ جب میں ان تباہ شدہ مکانات کے ملبے پر کھڑا ہوا تو اسی دوران ہلکی سی ہوا چلی ۔
اس ہوا کی وجہ سے مجھے ایک بو محسوس ہوئی ،تو میں نے اہل علاقہ کو جمع کیا اور  انکو کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس ملبے کے نیچے کئی لاشیں ہونگی۔
تو اہل علاقہ نے جواب دیا کہ بالکل یہاں لاشیں ہونگی ،لیکن اس خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا کہ جو یہ کہہ سکے کہ ہمارے فلاں بندے کی لاش نہیں ملی ہے،کہ ہم اسکو نکال دیں۔

سیلاب محسود نے بتایا کہ میرعلی میں ہمارے اقامت کے دوران ہی آپریشن ضرب عضب کا اعلان کیا گیا تو جس  مشکل سے ہم پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے بنوں پہنچے ہیں، وہ ناقابل بیان ہے۔انہوں نے کہا  کہ صرف ان جیٹ طیاروں کی بمباری کی رپورٹنگ کیلئے حکومت سے چھپ کر بہت سی  مشکلات جھیل کر حقیقت تک پہنچنا پڑا،اور یہ کوئی اخری موقع نہیں ہے۔

 انہوں حضرت اللہ نامی ایک دوکاندار کا واقعہ بھی سُنایا کہ جو آپریشن کے اعلان سے قبل اپنے بیوی بچوں کو یہ کہہ کر پشاور چلا گیا تھا کہ میں دوکان کیلئے سامان  خرید کر جب واپس آجاؤں تو اس وقت آپ لوگوں کو  ممکنہ آپریشن کی وجہ سے محفوظ مقام کی طرف  لے جاؤنگا۔لیکن جیسے ہی حضرت اللہ پشاور پہنچے تو اُدھر حکومت نے آپریشن کا اعلان کردیا۔
سیلاب محسود
اب حضرت اللہ اِدھر محصور اور اسکے بچے شمالی وزیرستان میں اپنے ابو کی راہ تکتے رہے۔سارا وزیرستان نقل مکانی کرگیا لیکن نہ ملے تو حضرت اللہ کے بیوی بچے۔ حضرت اللہ کہتا ہے کہ میں نے لکی مروت ،سرائے نورگ  ،بنوں ،کرک کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن میرے اہل وعیال نہ ملے۔حضرت اللہ کی یہ داستان شائد مشال ریڈیو پر نشر ہوچکی ہے۔

یہ حقیقت بھی ہے کہ پورے ملک بالخصوص فاٹا میں صحافت کو جس قدر  جکڑنے کی کو شش کی جا رہی ہے تو اس کی مثال نہیں ملتی۔
 اس سے پہلے بھی خیبر ایجنسی میں امن امان کی بگڑتی صورت حال پر جب جیو نیوز نے مقامی انتطامیہ کی نااہلی پر رپورٹ چلائی تھی تو  خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ نے بذات خود جیو نیوز کے نمائندے کو سبق سکھانے کا ٹیلیفونک آرڈر دیا تھا۔چنانچہ کئی کوششوں کے بعد اس صحافی کو جب  خاصہ دار فورس نے پکڑا تو  حوالات میں اسکے ہاتھ پاؤں توڑ دئے تھے۔

شائد آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک بار جب ہم  ٹرانسپوٹرز کی شکایات پر صحافیوں کی ٹیم کے ساتھ  افغانستان کے بارڈر طورخم  گئے تھے تو وہاں بھی پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت خاصہ دار فورس نے کیمرہ مینوں کے کیمرے بلاخوف و خطر توڑنے  کی کوشش کی تھی۔

کہا جا تا ہے کہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاء پر ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب عسکری کشمکش  وہاں عروج پر تھی تو  اس دوران صحافیوں کو کسی واقعے کی رپورٹنگ کیلئے باقاعدہ پرنٹ شدہ خبریں ملتی تھیں، کہ اس واقعے کو اس انداز میں نشر کیا جانا لازمی ہے۔ چنانچہ کئی صحافی اپنے ضمیر کے بوجھ سے علاقہ تو چھوڑ گئے لیکن حقیقت پسندی نہ چھوڑی۔ 
 جنہوں نے  پہلے سے ہی ٹائپ شدہ خبروں کو نشر  کرنے سے انکار کردیا تو گولی کے ذریعے اسکی قسمت کا فیصلہ کردیا گیا۔
چنانچہ اس تقریب میں  شمالی وزیرستان ایجنسی کے صحافی ممتاز داوڑ ،حیات اللہ داوڑ اور دیگر مقتولوں کے اذیت ناک موت کا ذکر بھی کیا گیا۔

اس تقریب میں ایسے متاثرین بھی شریک تھے ، جو راستوں کی بندش کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے پیدل افغانستان نقل مکانی کر گئے تھے۔وہاں  چند دن گزارنے کے بعد پاکستان کرم ایجنسی کے راستے واپس آئے۔چنانچہ ان میں سےا یک گُل زمان بھی تھے۔گل زمان نے بتایا کہ آپریشن کے اعلان کے وقت میں سب ڈیژن رزمک چلا گیا،یہ علاقہ ایک پُرفضاء مقام ہے اور یہاں کئی سالوں سے کوئی عسکری کشمکش نہیں ہوئی ہے۔
انہوں  نے بتایا کہ   رزمک سے باہر نکلنے کے سب راستوں پر کرفیو لگا دی گئی تھی،لھذا پشاور پہنچنے کیلئےگل زمان  پہلے تو رزمک سے دتہ خیل پیدل چلے گئے۔ انہوں نے  بتایا کہ یہ صرف کہنا آسان ہے کہ میں رزمک سے دتہ خیل پیدل چلا گیا۔ بقول گل زمان  مجھ جیسے پہاڑوں کے عادی شخص کے پاؤں اس سفر میں ساتھ دینے سے کئی بار عاجز آگئے۔
دتہ خیال  میں رات گذارنے کے بعد صبح وہاں سے مداخیل اور پھر افغانستان کے علاقے خوست پیدل چلا گیا۔
گل زمان  نے بتایا کہ خوست بازار میں باقاعدہ افغان پولیس نے مجھے خوش آمدید کہا۔
میں نے گل زمان سے پوچھا کہ سُنا ہے کہ متاثرین کی بھاری تعداد افغانستان گئی ہے؟
تو انہوں نے بتایا کہ خوست بازار میں مجھے کئی جانے پہچانے چہرے نظر آئے۔کچھ لوگ گھروں میں رہائش پذیر تھے ،کچھ کی قسمت میں خیمے لکھے تھے۔ متاثرین اپنے قبائلی روایات کے مطابق بندوقیں اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے۔
میں نے گل زمان سے پوچھا کہ کتنے دن وہاں رُکے ،تو انہوں نے جواب دیا کہ میں وہاں صرف چند گھنٹے رہا ،اسکے بعد پاکستان آگیا۔

اسی  تقریب میں معلوم ہوا کہ پاکستانی طالبان کا حافظ گل بہادر گروپ بھی آج کل خوست اور متعلقہ بارڈر علاقوں میں موجود ہے۔اور یہ کہ پاکستانی طالبان نے بارڈر ایریا پر کسی قسم کی عسکری کاروائیوں کو سختی سے منع کیا ہے ، اور افغان آرمی کیمپوں کے قریبی علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
بلکہ یہ تک بتایا گیا کہ  رمضان میں افغان آرمی دو تین سو پاکستانی طالبان کیلئے  افطار پارٹی منعقد کرتی ،اور اسکے بعد ایک تقریر کی جاتی کہ جس میں پاکستان اور خاص کر پنجاب کے خلاف نفرت آمیز زبان استعمال کی جاتی۔پھر اپنی ہمسائیگی اور پشتون ولی کی باتیں کی جاتیں ،جس سے پاکستانی طالبان میں پاکستان مخالف جذبات ابھارنے کی بھرپور کوشش کی جاتی،بلکہ بتایا گیا کہ کس حد تک وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں،اور جس طرح  حقانی نیٹ ورک کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا گیا ہے، ہوسکتا ہے کہ ایک حقانی نیٹ ورک وہاں سے بھی پاکستان کے خلاف لانچ ہوجائے۔

سننے میں آیا کہ باقاعدہ افغان حکومت کی طرف سے پاکستانی طالبان کے ساتھ باضابطہ معاہدے کی پیش کش بھی کی گئی ہے ،لیکن تاحال شائد اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

اندرون وزیرستان کے حالات کے سلسلے میں مختلف شرکاء سے معلوم ہوا کہ میرعلی و میرانشاء کے تقریبا تمام بازار گولہ باری سے شدید متاثر ہیں۔ جس میں عوامی نقصان اربو ں روپے تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ میڈیا کے مطابق بازاروں کی تباہی میں بارودی سرنگوں کا بھی کردار ہے ،جنکو صاف کرنے کے بجائے وہیں بلاسٹ کیا گیا۔

اسکے علاوہ بعض رہائشی علاقوں پر بھی شدید شیلنگ کی گئی ہے اور خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں موجود تمام رہائشی گھر تباہ ہوگئے ہیں۔

اربوں روپوں کے کاروباری مرکز میرعلی بازار کی تباہی کا ایک منظر




اسی طرح شمالی وزیرستان کے سب سے بڑے کاروباری مرکز اور کئی مربع میل پر محیط میرانشاء بازار کی تباہی


میرانشاء تباہی کے مزید تصاویر دیکھنے کیلئے Destroyed Miranshah گوگل کریں۔

اسکے ساتھ ایک اور بات جو سامنے آئی وہ یہ کہ آرمی نے کئی ٹرک قیمتی سامان گھروں سے نکالا ہے ،اور انکو  نامعلوم مقام پر لے جایا جاتا ہے۔ صحافی نور بہرام نے تو بتایا کہ بعض رپورٹوں کے مطابق یہ سامان مختلف آرمی کیمپوں یا سول کالونی میں بھی رکھا گیا ہے۔
اب یہ علم نہیں کہ آیا یہ سامان حفاظت کیلئے گھروں سے نکالا جا رہا ہے ؟
اسی طرح کی رپورٹیں بازاروں کے بارے میں بھی آرہی ہیں کہ اکثر دوکانیں خالی کردی گئی ہیں۔اور بیش قیمت سامان کو ٹرکوں میں ڈال کر منتقل کیا گیا ہے۔ ایک حکومتی اہلکار کے بقول انٹیلیجنس ادارے بھی اس امر کی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔

ان تمام حالات کو سامنے رکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے تو وہ شائد یہی ہے کہ متاثرین شمالی وزیرستان کو جلد از جلد اپنے گھروں میں آباد کیا جائےتاکہ یہ نوجوان جنکے تعلیمی سلسلے مسدود ہوگئے ہیں، کہیں غلط ہاتھوں میں نہ چلے جائیں ۔ وہ قبائل جو وطن کے بے لوث سپاہی تھے، کہیں اپنے انکو اس قدر بد ظن نہ کرلیں کہ انکو دوسروں کی گود سنہری نظر آئے۔

4 تبصرے:

  1. یہ محض "قصہ" ہی نہیں ایک نوحہ ہے ہمارے قریب رہنے والوں پر زندگی تنگ ہونے کا۔ایک طمانچہ ہے ہماری بےخبری کے منہ پر۔اور ایک المیے کا بیان ہے جو وقتی نہیں بلکہ آئندہ نہ جانے کتنی نسلوں کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا۔ہم شہروں میں رہنے والے صرف یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ نہیں ٹھہراا سکتے۔۔۔ کہ ان لوگوں کو دہشتگردوں کو پناہ دینے کے جرم کی سزا مل رہی ہے۔ یہ وہ آگ ہے جس کی زد سے ہم جسمانی طور پر بچ بھی جائیں پر اخلاقی طور پر بحیثیت ایک انسان ہونے کے اس کی تپش ہماری دنیا وآخرت کو برباد کرنے کو کافی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. انسان بھولتا اسے ہے جسے یاد نہ رکھنا چاہے۔ مجھے سب یاد ہے ۔۔۔ ہمارا ماضی اور اس سے بڑھ کر بحیثیت قوم ہمارا حال۔ اس علاقے میں میں کبھی نہیں گئی لیکن ایک دوست کےحوالے سے وہ جگہ میرے لیے اجنبی قطعاً نہیں اور "داوڑ" تو میری یاد میں آج بھی جگمگاتا ہے جب خط لکھتے وقت اس کے والد کا نام کے ساتھ لکھتی تھی ۔آج کے اسلام آباد کے فسادی مسائل میں "میران شاہ" اور اس کے قریبی علاقوں کے مکینوں کے مسائل و پریشانیاں کہیں چھپ کر رہ گئے ہیں ۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم کرے۔ تقدیر کا چکر کبھی بھی کسی کو اوپر سے نیچے لا سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. وزیرستان کے ایک فرد سے میری ملاقات ہوئی تھی اس نے اس سے بھی زیادہ دردناک نقشہ کھینچا تھا۔
    لیکن میں نے اس سے یہی کہا تھا کہ، "وزیرستان والوں کو پہلے ہی سوچنا چاہیے تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کو پیسے لے کر پناہ دینے کا نتیجہ یہی نکلے گا۔"

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ جناب :)
      آکی بات درست کہ جرائم پیشہ عناصر کو پیسے کے عوض کا پناہ ،لیکن کاش ایسا ہوتا تو بھی ٹھیک تھا۔
      لیکن حقیقت ایسی تو نہیں تھی۔ان (جرائم پیشہ عناصر) کو تو اہلیان وزیرستان پر اس طرح مسلط کیا گیا ،جس طرح دہشت گردی کو پورے ملک پر منظم طریقے سے مسلط کیا گیا۔

      اور جس طرح پورا ملک دشہت گردی سے متاثر کیا گیا ،اسی طرح وزیرستان کو بھی تختہ مشق بنایا گیا۔

      حذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1