تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 30 ستمبر، 2011

اپنی کمائی بڑھائیے

جمعہ, ستمبر 30, 2011
ہوا  یوں کہ   ایک شخص  سفر کے دوران ایک راستہ سے گزر رہا تھا ،  کہ اچانک اس نے ایک  آواز سنی ۔  آواز آسمان میں موجود بادلوں  سے مخاطب تھی ۔
اور بادلوں کو حکم دیا جارہا تھا کہ فلاں آدمیکے باغ کو پانی کی ضرورت ہے لھذا   اسکے باغ  پر جا کر برسو۔


مسافر نے جب یہ عجیب ماجرا  دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اور اس آدمی اور باغ کی تلاش میں چل پڑا۔ چلتے چلتے جب  اس باغ کےپاس پہنچا
 تو اس باغ  کا  مالک  ایک عام آدمی تھا اور اپنے باغ میں درختوں کی دیکھ بھال  میں مصروف تھا۔۔  اس نے   باغ کے مالک کو تمام ماجرا سنایا  اور  اس راز  کے بتانے پر اصرار کیا۔

تو باغ کے مالک نے کہا کہ میں کوئی اور خاص عمل تو نہیں کرتا ہوں البتہ جب باغ  کے پھل پک جاتے ہیں تو  میں ان پھلوں کو  تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔

ایک حصہ راہ خدا  میں وقف کرکے  اہل اللہ اور فقراء مساکین  پر تقسیم کرتا ہوں ۔ دوسرا حصہ اپنے اہل و عیال کے کھانے کے واسطے گھر میں رکھتا ہوں اور تیسرے حصے کو بازار میں لے جا کر فروخت کرکے  اسکے منافع کو باغ کی مرمت  اور  درختوں کے دیکھ بھال وغیرہ پر لگاتا ہوں۔

مسافر نے جب یہ بات سنی تو اس نے کہا کہ  تمھارا  راہ خدا میں ایک حصہ کا صدقہ ہی  اصل وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ   تمھارے باغ کی ضروریات کو پورا  کر رہا ہے۔

دوسرا  واقعہ یہ ہے کہ  تقسیم بر صغیر سے پہلے علماءکرام کی خدمت میں ایک فقیر نے دعوت کر ڈالی۔

دعوت کیا تھی بس سادہ سے دال چنے تھے۔لیکن  بزرگ مہمانوں نے وہ کھانا معمول سے زیادہ کھایا تو   میزبان حیران رہ گیا کہ  اس معمولی دال چنوں میں کیا تھا کہ مہمانوں نےمعمول سے ہٹ کر اس  قدر شوق سے کھانا کھایا۔

چنانچہ اس میزبان سے رہا نہیں گیا اور اخر پوچھ ہی لیا ۔ تو مہمان جو کہ بزرگ ولی اللہ لوگ تھے  انہوں نے کہا کہ کرامت کے طور پر اللہ تعالیٰ    نے ہم کو  دکھایا کہ  آپ کے معمولی کھانے پر انورات نازل ہو رہے یں۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ایسا پرانوار کھانا زیادہ سے زیادہ  ہم کھائیں تاکہ  اس بہانے وہ انوارات ہمارے وجود میں منتقل ہوجائیں۔

لیکن چونکہ آپ میزبان ہو لھذا  اصل راز بتاؤ کہ کیوں آپکے کھانے پر اس قدر انوارات نازل ہو رہے تھے۔

تو میزبان فقیر نے کہا کہ جناب میں تو بس صبح سے مزدوری کرتا ہوں اور شام کو جب گھر لوٹتا ہوں تو اپنی کمائی  کو تین حصے کرکے  ایک حصہ راہ خدا میں خرچ کرتا ہوں اور  باقی دو حصے اپنے کام میں لاتا ہوں۔

تو بزرگوں نے بتایا کہ بس یہی  اصل راز ہے۔

کچھ عرصہ قبل  میں ایک اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس میں اسی موضوع پر  ایک کالم لکھا گیا تھا۔ جب میں نے اس کالم کو دیکھا تو مجھے یہ واقعات یاد آگئے ۔اب آپ کالم پڑھ لیں۔ اور  کالم کے اختتام پر ایک ایسے شخص کا تجربہ بھی پڑھ لیں جس کا   بندہ  (درویش خُراسانی)  خود چشم دید گواہ  ہے۔


 اب چشم دید واقعہ یہ ہے کہ ایک ساتھی نے جب یہ واقعات  پڑھ لئے تو اس نے

بھی  اپنی امدنی کا تیسرا حصہ راہ خدا میں صدقہ کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اسکی کوئی امدن تھی ہی نہیں۔

لیکن پھر بھی اس نے اپنے ساتھ یہ عھد کر لیا کہ میں اپنے آمدنی کا تیسرا حصہ صدقہ کرونگا، چاہے وہ کتنا ہی بنتا ہو۔

پھر ایک ماہ بعد اس کو سترہ سو روپے ماہانہ پر کام مل گیا۔ تو اس نے فورا  وہ کام قبول کرلیا۔ اور مہینہ کے اخر میں  تنخواہ ملنے پر اس نے اپنی تنخواہ  کا  تیسرا حصہ راہ خدا میں صدقہ کر لیا۔

یہ معمول کوئی پانچ چھ مہینے جاری تھا اور یہ لڑکا بھی اپنے کئے ہوے وعدے کو پابندی سے پورا کرتا تھا۔  پانچ  چھ  ماہ  بعد اس لڑکے کو بائیس ہزار  ماہانہ پر ایک سرکاری عہدیدار کی جانب سے حکومتی   نوکری کی پیش کش ہوئی۔ تو مسنون استخارہ کے بعد  مثبت جواب ملنے پر اس نے اس نوکری کیلئے ہاں کردی۔ اور کاغذات جمع کرالئے۔

اور اسی دوران اسنے کیلکولیٹر سے  اس بائیس ہزار روپے کو تین حصوں پر تقسیم کیا   تاکہ اگر یہ نوکری اس کو مل جائے تو یہ اپنے وعدے کی پابندی کرسکے۔اور اس کو  اپنی تنخواہ  کا  تیسرا حصہ صدقہ کرنے  میں اسکو آسانی ہو۔۔

ابھی اس نے یہ ارادہ کیا ہی تھا اور ان باتوں میں چند دن ہی گذرے تھے کہ متعلقہ محکمے کے  بھرتی کرنے والےعہدیدارنے اسکو پیغام  بھیجا کہ آپ ذرا  انتظار کرو  ،کیونکہ چند دنوں میں اس سے  اونچے گریڈ کے پوسٹ پر تقرریاں  ہونگی تو ہم اس میں آپکو بھی شامل کردینگے۔ جس کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہوگی۔

اور اب اس نے پھر کیلکولیٹر ہاتھ میں لے کر چالیس ہزار کا تیسرا حصہ معلوم  کیا تاکہ اپنے تیسرے حصے کے صدقہ کرنے والے وعدے کی پاسداری کرسکے۔

اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے ۔ تنخواہ پھر ڈبل ہوتی ہے یا  اسی تنخواہ میں چند مہینے  امتحان ہوگا۔ اور اسکے بعد پھر ترقی۔

نوٹ : جب ہمیں اللہ تعالیٰ   رزق فراخی کے ساتھ ادا کرتا ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ اس کے دین کی خدمت زیادہ سے زیادہ  کریں۔صدقات کے دیگر مصارف کے ساتھ ساتھ دینی مدارس اور مساجد  بھی ایک اہم مصرف ہے۔

دشمن جس مورچے کو کمزور کرنا چاہتا ہو تو ہمیں اُسی مورچے کو اور بھی مضبوط بنانا چاہئے۔ آج عالم کفر دینی مدارس اور مساجد کے درپے ہے ۔ اور اس بات کی اقبال نے بھی نشاندہی کی ہے کہ

افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج

ملا کو انکی کوہ و دامان سے  نکال دو

لھذا ہمیں ان مساجدو مدارس کو اور بھی مضبوط کرنا چاہے۔

 اگر ایک آدمی بھی ہماری سبب بے دین اور کافر مرے تو اسکا دنیا و اخرت کا نقصان ہوگا۔

وضاحت:

 بعض اوقات ایک بندہ خوب صدقے دیتا ہے لیکن اسکی روزی کوئی زیادہ فراخ نہیں ہوتی ۔ تو اصل میں بات اسطرح ہوتی ہے کہ اللہ تعالٰی  اس کے صدقے کے اجر کو اسکے لئے اخرت میں جمع کر رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں کسی مصلحت کے سبب اللہ تعالٰی نے اسکی روزی تنگ کی ہوتی ہے۔ لھذا اسمیں بھی اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنا چاہے کہ کم از کم اخرت میں اسکا ثواب تو مل جاتا ہے۔

کافر لوگ کروڑوں  ڈالر فلاحی کاموں میں  صرف کرتے ہیں اور بس جو کچھ ہے انکے لئے تو صرف اسی دنیا میں ہے ۔ اور انکے لئے اخرت میں صرف اور صرف جھنم ہے۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب مسلمان کو  دنیاوی تکالیف کے سبب اخرت میں جو اجر ملے گا تو وہ اتنا زیادہ ہوگا کہ یہ مسلمان کہے گا کہ کاش دنیا میں میرا وجود قینچی سے کُتر لیا جاتا تو بھی میں اس اجر کیلئے وہ تکلیف سہہ لیتا۔

اللہ تعالیٰ   ہمیں نیکی کی توفیق دے ۔۔آمین

13 تبصرے:


  1. بہت اچھا اور عمدہ لکھا ہے بلکہ ایک اہم بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بہت شکریہ،

    جواب دیںحذف کریں

  2. درویش خراسانی صاحب، اللہ آپکو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میرے ایک دوست نے مجھے ایک کتاب (من عجائب الصدقات) بھیجی ہے۔ میں اُسکی تلخیص کر کے پوسٹ کرنا چاہتا ہوں۔ انشاء اللہ یہ تلخیص آپکے مندرجہ بالا آرٹیکل کا ہی تسلسل ہوگی۔

    جواب دیںحذف کریں

  3. برادر محترم محمد سلیم صاحب:


    آپ ہمارے بلاگ پر تشریف لائے۔ آپکا بہت شکریہ۔ جب اس کتاب کی تلخیص شائع کردیں ،تو مجھے ضرور اطلاع دینا ۔انشاءاللہ ہم بھی اسکو مزے لے لے کر پڑھیں گے۔کیونکہ آپکی تحاریر ویسے ہی بہت مزیدار ہوتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. درویش بھائی آپکی یہ تحریر صدقہ جاریہ ہے اللہ آپکو جزاء خیر عطاء فرامائیں اور ہم سبکو اس پر عمل کرنے کی توفیق دیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. ماشاء اللہ بہت خوب لکھا ہے .اخروی اجر کے بارے میں تو بہت سنتے ہیں دنیا میں ہی اجر کے بارے میں کم ہی سننے کو ملتا ہے . مجھے یقین ہے کہ آپکے مضمون سے کی لوگ انفاق فی سبیل الله کی طرف مائل ہونگے...

    جواب دیںحذف کریں
  6. ڈاکٹر صاحب
    کوشش تو یہی ہے کہ لوگ انفاق فی سبیل اللہ کی طرف مائل ہوجائیں،کل ایک رپورٹ دیکھی جس میں دنیا کے 5 بڑے ارب پتی لوگ سادہ زندگی گذارتے تھے اور انکی دولت کا کافی حصہ فلاحی کاموں کیلئے وقف تھا،حالانکہ انکے لئے اخرت میں کوئی جزاء نہیں بس یہی دنیا انکی سب کچھ ہے،
    اور ہم مسلمان باوجود ترغیب وترہیب کے خدائی خزانوں پر سانپ بنے بیٹھے ہیں،
    صرف اگر فرض زکواۃ ہی صحیح طریقے ادا کرلیں تو ملک میں انقلاب آجائے

    جواب دیںحذف کریں
  7. فکر پاکستان بھائی ۔۔۔قیمتی وقت نکال کر بلاگ پر تشریف آوری کا بہت شکریہ
    اللہ تعالیٰ آپکی دعاؤں کو قبول فرمالے ۔آمین

    جواب دیںحذف کریں

  8. جب سے کمانا شروع کیا ہے عادت ہے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ ضرور دیتا ہوں۔ ایک تہائی جتنی تو اوقات نہیں لیکن اتنا ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جاتے ہوئے پتا لگے کہ پیسے گئے ہیں۔ اللہ اتنے کی ہی توفیق دئیے رکھے، اتنے نے ہی مجھے کبھی رزق کی تنگی نہیں ہونے دی۔ کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ سلسلہ بن ہی جاتا ہے۔ الحمد اللہ۔
    ایک اور عمل جس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا وہ شکر ہے۔ خصوصاً کھانا کھاتے ہوئے شکر کرنے سے بڑی راحت ملتی ہے۔ شکر کرنے سے بھی رزق میں برکت ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

  9. دوست صاحب:
    بلاگ پر خوش آمدید ۔۔۔۔
    اللہ تعالیٰ آپکی محنت اور صدقات کو قبول فرمالئے،واقعی شکر ایک عجیب عمل ہے۔
    قیمتی وقت نکال پر بلاگ پر تشریف لانے کا شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  10. ویسے تو "ایک ہاتھ سے ایسے دو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نا چلے" پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔۔۔ لیکن کسی دوسرے کو ترغیب دلانے کے لیے اپنے اعمال کو دنیا کے سامنے لے آنے میں کوئی قباحت نہیں۔۔۔

    آپ نے ایک بہت اچھے مسئلے کی جانب ہماری توجہ دلائی ہے۔۔۔ انشاءاللہ ہم بھی کوشش کریں گے کہ کچھ نا کچھ اللہ کی راہ میں وقف کرتے رہیں۔۔۔ ویسے بھی صدقہ کئی مصائب سے بچنے میں مدد دیتا ہے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. السلام علیکم جناب بہت اچھا لکھا ہے بے شک درست لکھا ہے پڑھ کر اچھا لگا
    لیکن جناب دوسرے واقعہ میں جو آپ نے علماء دیوبند لکھ کر جو فرقہ واریت کو ہوا دی ہے وہ مجھے کچھ پسند نہیں آیا اگر آپ صرف علماء اکرام یا پھر ولی اللہ لکھ دیتے تو بہتر ہوتا۔
    یہ میری ذاتی راے ہے باقی آپ کی تحریر بہت اچھی ہے بہت شکریہ

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1