تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 21 ستمبر، 2011

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

بدھ, ستمبر 21, 2011

صبح کا وقت تھا ۔ میں گھر میں تھا کہ ایک بچہ اندر آگیا اور  کہنے لگا کہ باہر آپکے دو دوست آپکو بلا رہے ہیں۔میں نے اسکو کہا کہ ٹھیک ہے میں باہر آرہا ہوں ۔
چونکہ میں کہیںجانے والا تھا ، اسی لئے میں تھوڑی دیر بعد نکلا۔ باہر جاکر  میں  ان دونوں دوستوں سےملا ۔ ان میں سے ایک سابقہ  پروجیکٹ مینجر تھا ،اور دوسرا  موجودہ پروجیکٹ مینجر۔

وہ ہمارئے رضاکارانہ شروع کردہ فلاحی پروجیکٹ  کے بارئے میں بات کرنے آئے تھے کہ اگر آپ مناسب جانیں  تو ہمارے ساتھ فلاں جگہ چلے جائیں ۔

میں نے انکو کہا کہ مجھے والد صاحب کے ساتھ کہیں جانا ہے ،لھذا فی الحال میں جانے سے معذرت کرتا ہوں ۔ جس پر اس سابقہ پروجیکٹ مینیجر نے میرے دوسرے ساتھی (حالا پروجیکٹ مینیجر) سے کہا کہ اسکا دل نہیں کر رہا اور یہ بہانے بنا رہا ہے ،نیز میں اسکےدل کی بات جانتا ہوں کہ اسکا پروجیکٹ کے کام کے سلسلےمیں ہمارئے ساتھ جانے کو دل نہیں کر رہا ۔

 اب مجھے غصہ بھی آگیا کہ اس بندے کو کیا ہوگیا ہے جو کہ میرے سامنے میرے عذر کی تردید کرکے اسکو بہانے کا نام دے رہا ہے۔حالانکہ اس  رضاکارانہ فلاحی پروجیکٹ کے بانیوں میں سے ایک میں بھی تھا ۔ اور اُس وقت ہم صرف چار بندے تھے ۔اور ان دونوں  مذکورہ بندوں  کو ہم ہی نے اس پروجیکٹ کی لوکل مینیجمنٹ دی تھی ۔اور یہ جس بندے نے مجھ پر بہانہ سازی  کا الزام لگایا ،اسکے لئے تو میں نے سپیشلی سفارش کی تھی ، کیونکہ مجھے اسکی کچھ خوبیاں نظر آگئی تھیں۔ لیکن اسکی چند بے قاعدیوں کے سبب مجھے ہی اسکو دوبارہ مینیجنگ  سے ہٹانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

خیر اس وقت تو جیسے تیسے میں نے انکو رخصت کردیا۔ لیکن بعد میں جب میں دوسرے دوستوں کے ساتھ شام کو  ملا جو کہ اسی پروجیکٹ میں  رضاکارانہ طور پر ہمارے ساتھ ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ سابقہ پروجیکٹ مینیجر یہ دعوی ٰ کرتا ہے کہ میں جب کسی سے باتیں کرتا ہوں تو سامنے والا جو بھی کہے لیکن مجھ پر اسکے دل کا راز کھلتا ہے ۔اور اسکے دل کی چھپی ہوئی  اصل بات اور سینے کے راز سے مجھے واقفیت ہوجاتی ہے۔

میں نے جب یہ سنا تو حیران بھی ہوا اور غصہ بھی۔

کہ اس احمق (سابقہ پروجیکٹ مینیجر) کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس نے   پروجیکٹ میں جو بے قاعدگیاں  کی ہیں کہ جس کے سبب  باقی دوستوں کوتکلیفیں و مشقتیں  اٹھانا پڑئیں اور کتنے  خطرناک مسائل کا سامنا کرنا پرا کہ جس میں بے وجہ انکی جان بھی جا سکتی تھی۔اور  اخر انہیں ساتھیوں نے جب معاملہ میرے سامنے بے نقاب کیا اور پیش آنے والے مسائل کے بارئے میں مجھے بتایا  تو  مجھے اسکو مینیجنگ سے ہٹانا ہی پڑا ۔

 اب اسکو اپنی غلطیاں تو نظر نہیں آرہی تھی اور ناہی یہ ساتھیوں کے دل کی یہ بات جانتا تھا کہ میرئے سبب انکو تکلیف ہے،اور لگا دعوے  کرنے کہ میں لوگوں کی دل میں چھپی اصل بات جانتا ہوں۔

 بعینہ ایسے ہی ایک صاحب اردو بلاگستان میں بھی ہیں۔ جو اپنے کو پاکستان کا مفکرسمجھتا ہے۔ان صاحب کو ہماری بات میں سازش نظر آتی ہے۔نیز اسکے ساتھ جھوٹا اور پاکستانی ہم وطنوں کے ساتھ  بغض رکھنے کا اعزاز بھی ہمارئے کندھوں پر بڑی دیدہ دلیری سےانہوں نے  سجا دیا  ہے۔

ہمیں تو یہ سارئے نعرے( سب سے پہلے پاکستان ، کھپے پاکستان اور فکرپاکستان) کچھ عجیب اور ایک جیسے لگتے ہیں۔لوگوں کی طرح علم غیب کا دعویٰ نہیں لیکن پتہ نہیں ایسا کیوں لگتا ہے۔

موصوف کو ہماری وہ بات جو کہ ہم بلاگ  میں صاف صاف لکھتے ہیں ،نظر نہیں آتی بلکہ  ان پر ہمارئے دل کی اصل اور چھپی ہوئی بات  نیزسینے کے راز  کا سپیشل اور خصوصی کشف ہوتا ہے۔اور موصوف خوب بے بانگ اور کھلے دل سے اپنے کالم میں یہ بات لکھتا ہے۔جیسے اسکی بات گویا پتھر پر لکھیر ہے۔

اور یہ زنانہ پن (عورتوں سے معذرت کے ساتھ) تو اسکے خمیر ہی میں موجود ہے کہ بات بے بات  اکابرین  کو برا بھلا کہتا ہے، میرے خیال میں کئی باراس بندے کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے کہ کسی مسئلے میں بحث پر اکابرین  کے عزتوں   و عظمتوں کو سر عام نیلام کردیتااور خوب اُن کو لتاڑ کر  دل کی بھڑاس نکال دیتا۔

کسی بات تو غلط ثابت کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے کہ اس  کے بتانے والے  کے ساتھ مناسب انداز میں بات کرنے کے بجائے  الٹا اسکو  جھوٹے اور  بغض رکھنے  جیسے اعزازات سے نواز اجائے۔

دوسری بات یہ کہ اگر اس نے کوئی غلط معلومات دئے دی،تو ہوسکتا ہے اس تک جن ذرائع سے معلومات پہنچی ہو ،وہاں کسی سے غلطی ہوئی ہو۔

ہاں کسی کے پاس بلاگ پر لکھنے کیلئے کوئی دوسرا موضوع نہ ہو تو بس کسی کو بھی پکڑ کر اسکو لتاڑے، اسکے دو فائدے ہونگے۔پہلا فائدہ تو یہ کہ  بلاگ لکھنے کیلئے مواد مل جائے گا ،دوسری بات یہ کہ اگر اسکے کہیں مخالفین ہوں تو وہ اس کالم پر آکر خوب دل جلے کمنٹس کر کے بلاگ کو چار چاند لگا دیں گے ۔ بس پھر بلاگر صاحب کو اور کیا چاہئے،یہی تو اسکومطلوب و مقصود ہوتا ہے۔

رہی سکالرشپوں والی بات تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ سینکڑوں فل برائیٹ جیسے جال امت مسلمہ کو  پھنسانے کیلئے  بُنے ہوئے ہیں۔اور میں نے پہلے بھی کہا تھاکہ اگر کسی کی بنیاد مضبوط اور پکی ہو تو الگ بات ورنہ کچے دیوار ہوا کے معمولی تھپڑ کے ساتھ بھی گر جاتے ہیں۔اور اگر یہ ہوا کچھ اور تیز چلے تو پھر تو بعض سولہ اور اٹھارہ سال کے مضبوط برج بھی گرجاتےہیں۔

شیطان یہ نہیں کہتا کہ تمھارے بندوں کو غریب بنا دونگا ،یا جاہل  بنا کر انکو ڈگریوں سے روک دونگا۔بلکہ اسکی صرف ایک بات ہے کہ میں تمھارئے بندوں کو تمہارا نہیں ہونے دونگا ،اگر کوئی بنا بھی تو اسکے اعمال کو ضائع کرنے کی بھرپور کوشش کرونگا۔اسکا یہ معنی نہیں کہ اب ڈگریا ں مت لو، یا دولت نہ کماؤ ، نہیں یہ کام کرو لیکن بندگی ہاتھ سے  نہ چھوٹے۔

اور یہ بھی بتا دوں کہ جس لڑکی کاپچھلے بلاگ پر میں نے ذکر کیا تھا ،تو اسکے بارئے میں  یہ بھی بتادوں کہ جس وقت وہ امریکہ گئی تھی تو نویں جماعت کی طالبہ تھی اور 15 یا  16  سال اسوقت اسکی عمر تھی۔کسی پر بغیر ثبوت کے بُرئے حرکات کا الزام لگانا اچھی بات نہیں لیکن خدشات   اور باوجہ اندیشوں سے انکار ممکن بھی نہیں۔اور یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اندیشوں  کے سبب کسی پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا ،اور نہ ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا۔

یہ زندگی ایک دارالامتحان ہے۔ آدمی کی پیدائیش سے لے کر قیامت تک اللہ تعالیٰ  اور  شیطان کی دشمنی  چلے گی

اختتام شاعر کے اس شعر پر کرتا ہوں کہ

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔

9 تبصرے:


  1. بھائی، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے غالباَ تحریر غور سے نہیں پڑھی ایک بار پھر سے پڑھہ لیجئیے میں نے بغض کا صیغہ آپکی طرف سے اپنے لئیے نہیں استعمال کیا ہے، بغض کا صیغہ میں نے اس سوچ کے لئیے استعمال کیا ہے جس سوچ کی وجہ سے ہم اغیار کے اچھے کاموںدرویش کو بھی سازش قرار دے دیتے ہیں، اور اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے یہ سوچ جسکی بھی ہو اسے اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنی چاہئیے، میں نے جو بھی کہا ہے وہ درویش خراسانی کے لئیے نہیں کہا ہے میں نے اس سوچ کی نفی کی ہے جو کسی کے اچھے کام میں بھی شازش کا پہلو ڈھونڈ نکالتی ہے۔ علماء کے لئیے جو کچھہ بھی لکھا ہے میں حرف بہ حرف اس پر قائم ہوں اور آگے بھی لکھتا رہوں گا، کیوں کے تاریخ گواہ ہے کے جب بھی ظالم حکمرانوں کا ظلم حد سے بڑھا ہے تو کوئی نہ کوئی امام وقت آگے آیا ہے اور کلمہ حق بلند کر کے قوم کو اس سے نجات دلائی ہے، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے، آج بھی اگر کوئی امام کوئی عالم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی سنت کو زندہ کرنے کے لئیے اٹھے گا اور قوم کو ان ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے کے لئیے کلمہ حق بلند کرے گا تو میں اللہ کو گواہ بنا کے کہتا ہوں کے میں سب سے آگے ہونگا انکے ساتھہ۔ اور جب تک یہ علماء اپنی یہ زمہ داری پوری نہیں کرتے تو میرے جیسے لوگ تو لکھتے رہیں گے ایسے لوگوں کے خلاف۔ میرا مقصد درویش خراسانی کی دل آزاری ہرگز نہیں تھا اور میری کسی بھی بات سے آپکی دل آذاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں آپ سے، میرا مقصد اس سوچ کی نفی کرنا تھا جس سوچ کو ہر ہر کام میں صرف سازش ہی نظر آتی ہے وہ سوچ چاہے کسی کی بھی ہو۔

    جواب دیںحذف کریں

  2. یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ بلاگستان میں بلا وجہ تلخیاں بڑھ رہی ہیں
    . آپنے مضمون میں کسی پراجیکٹ کا ذکر کیا اگر ممکن ہو تو اس پر بھی کچھ لکھیے گا مجھے یقین ہے کہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا ...

    جواب دیںحذف کریں

  3. فکر پاکستان بھا ئی
    آپ نے بہت اچھا کیا کہ ییاں آ کر بات کی ، کہیں پڑھا تھا میں نے کہ


    " تیسرے شخص کے متعلق بات کرنے سے بہتر ھے تیسرے شخص سے بات کرلی جائے"


    تلخیا ں ختم کرنے کا اس سے بہتر نسخہ کوئی نہیں، ویسے میں بتاتا چلوں کہ میں درویش کے" اس کالم" سے بھی خاصا متفق تھا اور فکرپاکستان کے جوابی کالم سے بھی خاصا متفق تھا
    تا ہم میرا یہ خیال ہے کہ درویش کو بھی تھوڑا وسیع النظری سے کام لینا چاہئیے تھا اور فکر پاکستان کو بھی نرم الفاظوں میں سمجھانا چاھہیے تھا اور سمجھانے کے لئے کمنٹس باکس کا استعمال کافی تھا ۔ اس پرجوابی بلاگ لکھنا منا سب نہ تھا بھرحال پھر کہونگا مسئلہ سامنے بات کرنے سے حل ہوتا ھے پیٹھ پیچھے نہیں۔
    میری بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معزرت۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم جناب زیرو جی صاحب:
    محترم جناب ڈاکٹر جواد صاحب:
    محترم جناب فخر پاکستان صاحب:

    بلاگ پر تشریف لانے اور کمنٹس کرنے کا شکریہ۔ آپ حضرات نے اپنے قیمتی اوقات مین سے کچھ وقت میرے بلاگ کو دیا، لھذا ایک بار پھر شکریہ

    ڈاکٹر صاحب کبھی موقع ملا تو ان شاء اللہ تعالیٰ پروجیکٹ پر لکھونگا۔

    جواب دیںحذف کریں

  5. غالب گمان ہے کہ خراسانی صاحب کی مراد اسٹوڈنٹ ایکسچینج پروگرام ہوگی، فل برائٹ نہیں کیونکہ اس کے لئے شرائط کچھ سخت ہیں۔ نیز بنا محرم ایک سال کے لئے کسی خاتون کا ایک غیر مسلم گھرانے میں‌ قیام کا تو غالبا کسی بھی مکتبہ فکر میں‌جواز نہیں مل پائے گا۔ وہ لوگ جو بنا محرم سفر کے قائل ہیں وہ بھی اگر اس موضوع میں‌شارع کے حقیقی مفہوم پر غور کریں تو اس قیام کی شرعی حیثیت متعین کرنا کچھ مشکل نا ہوگا۔ لیکن یہ حرمت صرف خواتین یا غیر مسلم گھرانے پر لاگو نہیں‌ہوگی،کہ ایک ہی گھر میں غیر محرم، غیر ساتر خواتین کے ساتھ اختلاط کی صورت مسلم مردوں پر بھی اسی طرح لاگو ہوگی۔

    بسا اوقات حق بات کے تسلیم کرنے میں انٹولیکچول ڈسکریمینیشن یا تبعیض فکری آڑے آجاتی ہے، ہو سکتا ہے کہ میں مصنف کے استدلال یا طرز تحریر سے متفق نا ہوں لیکن جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی اس سے اتفاق نا کرنا کتمان حق ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں

  6. عدنان مسعود صاحب:
    اپنا قیمتی وقت نکال کر بلاگ پر تشریف لانے کا بہت شکریہ۔
    آپ نے ایک اچھے پوائینٹ کو چھیڑا ہے۔واقعی نامحرم کے سفر اور قیام والی بات میری ذہن میں بھی نہیں تھی۔
    نیز آپ کا گمان درست ہے کیونکہ فل برائیٹ سے میری مراد ہر ایسا پروگرام ہے۔،

    جواب دیںحذف کریں
  7. Keep up this good work, you have a nice blog over here with much good information! When you post some new stuff, I'll visit your blog again and I'll follow it.

    جواب دیںحذف کریں
  8. Heads Up our family simply love your lovely blog and please keep the ball rolling

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1