تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 6 جنوری، 2015

تلخ حقیقت

منگل, جنوری 06, 2015
چند دن قبل  کچھ فرصت ملی تو دل نے چاہا کہ کیوں نا  چند احباب کے بلاگی باغیچوں کی چہل قدمی کی جائے۔ چنانچہ اردو بلاگرز فیس بکی گروپ میں جھانکا تو دیکھا کہ ایک حالیہ چند دن قبل کے پنجاب کے ایک کیس (جس میں مسیحی جوڑے کو جلا گیا تھا۔)پر کافی زور وشور سے بحث چل رہی تھی ۔کوئی ایک طرف مائل تھا کوئی دوسری طرف۔

اگرچہ ایسے اوقات میں میانہ روی اختیار کرنے والوں کو اکثر یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ یہ دو کشتیوں کی سواری کر رہا ہے۔ لیکن کبھی کبھی حقیقت تلخ ہوتے ہوئے بھی اپنے اپ کو منواتی ہے۔
میں یہ بات کافی عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ
جب دین دار لوگوں سے  کوئی غلطی ہوجائے تو بجائے اس غلطی کو سنوارنے ،ہم عصری اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔اور وہاں سے کھینچ کھینچ کر مثالیں پیش کرتے ہیں 
اسی طرح عصری اداروں کی غلطی پر ہم بجائے اسکے اصلاح کے الٹا ہم دینی اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔اور علماء و اہل علم پر اپنی بھڑاس  نکال لیتے ہیں، بلکہ بعض تو اس حد تک  جذباتی ہوجاتے ہیں کہ بندہ کو انکے ایمان کی فکر پڑ جاتی ہے۔
میرے خیال میں یہ طریقہ درست نہیں۔اس سے اصلاح کے بجائے بغض و کینہ کی کیفیت پروان چڑھتی ہے۔معاشرہ ترقی کے بجائے تنزل کی طرف  قدم بڑھا دیتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے اکثریتی دینداریوں کامتشدد ذہن  ،تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ،کہ دین کے معاملے میں بلکہ میں یہ کہنا چاہونگا کہ زندگی کے ہر معاملے میں ہم انتہاء تک پہنچتے ہیں۔
آپکو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بعض اوقات مفتیان کرام یا باضابطہ علماء کی جانب سے کسی معاملے میں نرم رویہ اختیار کرنے پر عوام ان علماء تک کو بائی پاس کردیتے ہیں۔اور ان علماء کو مختلف القابات سے نواز دیا جاتا ہے۔
اور ایسے سینکڑوں واقعات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔

چنانچہ ایک نوجوان سے میری ملاقات ہوئی جو کہ جمہوریت تلے پنپنے والی تمام قوتوں اور ملازمتوں کو کفر کا نام دیتے تھے۔ 
ایک موقع پر میں نے انکو بتایا کہ کسی کے کافر بننے سے تو اسکا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے،تو کیا یہ سب سرکاری ملازمین  اور جمہوریت کے سائے تلے پارٹیوں والے توبہ کے ساتھ ساتھ تجدید نکاح کا عمل بھی کریں گے؟
یہ بھی کہنا چاہونگا کہ اس معاملے میں پاکستانی عوام چاہئے تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ،سب برابر کے شریک ہیں۔
چنانچہ میں نے ان پڑھ لوگوں کے ساتھ 19 یا 20 گریڈ کے آفسران کو بھی دیکھا ہے کہ بعض معاملات میں وہ دین کے حدود سے بھی بڑھ کر شدت اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ شدت دین کی طرف سے نہیں بلکہ انکی اپنی نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔
رہی بات دینی اداروں کی ،تو اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ جب تک "مخلص" حکومت کی زیر سرپرستی علماء کو تیار نہ کیا جائے ،اس وقت تک ہمیں علماء سے کامل راہنمائی کی توقع عبث ہیں ،یہ جو سینکڑوں میں چند مثالی نمونے ہیں یہ شاذ ہیں۔

سب سے عمدہ مثال حضرت عثمان (رضی  اللہ عنہ) کے دور حکومت کا ہے کہ جب قران مجید کے تلفظ پر اختلاف بڑھنے لگا تو  حضرت عثمان (رضی  اللہ عنہ)  نے صرف قریشی لہجے میں قران مجید کو رہنے دیا اور باقی تمام نسخے جلا دئے۔

اسی طرح اگر مخلص حکومتوں کے زیر سایہ باقی دینی علوم  کی ترویج کی جاتی تو شائد آج اختلافات اس حد تک نہ بڑھ چکے ہوتے۔
اسکے ضد پر اگر کوئی موجودہ عصری علوم کے اداروں کی مثال دیں تو اسکی خدمت میں عرض ہے کہ حکومت عصری اداروں کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں بھی تباہی عروج پر ہے۔اور ہماری نوجوان نسل برباد ہو رہی ہے۔
آپ لوگوں کو شائد یاد ہوگا کہ انگریزوں کی آمد کے بعد ایمرجنسی بنیادوں پر دینی علوم کی ترویج کیلئے دینی ادارے قائم کئے گئے۔تاکہ جتنا ہوسکے ،اس حد تک لوگوں کو دین سے روشناس کرا یا جائے۔
اسی طرح اُس وقت کے نوجوانوں کو اُس وقت کے ایمرجنسی بنیادوں پر ہندووں کے مقابلے کیلئے تیار کیا گیا۔چنانچہ سرسید یا اس جیسے دوسرے عصری اداروں کا اولین مقصد ہی مسلم نوجوانوں  کو ہندوؤں کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا تھا۔
اور یہ ایمرجنسی نظام ہائے تعلیم ابھی تک چل رہے ہیں۔حالانکہ ایمرجنسی صورت حال کو گذرے ہوئے دھائیاں بیت گئی ہیں۔
اور یہ بات سب لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ ایمرجنسی کام صرف ایمرجنسی حالات کے وقت مفید ہوتا ہے ، ورنہ نارمل حالات میں وہ بذات خود بھی نقصان دہ ہوتا ہے۔ عام زندگی میں اسکی کئی مثالیں موجود ہیں۔

6 تبصرے:

  1. جوابات
    1. افتخار اجمل بھوپال صاحب
      اس کرم کا انتہائی مشکور ہوں ،اور مستقبل میں بھی دعاء یہی ہے کہ آپ جیسے بزرگ ہماری سرپرستی کریں۔

      حذف کریں
  2. منصور صاحب مجھے خوشی ہے کہ آپ کا علمی و ذہنی ترقی کا سفر جاری ہے اور جمود طاری نہیں ھے جو عامیوں کا خاصہ ھے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. شکریہ ریاض بھائی
      اب کیا ہے ناں ،کچھ کچھ لیبرل بننا پڑتا ہے۔( :) )
      ابھی تو غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں لکھنے کیلئے ذہن انگڑائیاں لے رہا ہے۔
      اور ایک جگہ اس پر ایک مختصر تقریر بھی کرچکا ہوں۔

      حذف کریں
  3. ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بنوں کے پرزور بلاگز کے بعد سانحہ پشاور پہ آپکی خاموشی بہت معنی خیز لگی۔ حیرت سے زیادہ افسوس ہوا۔ کہ ہم لسانی ، قومی ، مسلکی، فکری تعصبات سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. عاطف سلمان صاحب
      بلاگ پر خوش آمدید
      یہ واقعی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سانحہ پشاور پر میری خاموشی معنی خیز ہے۔یقین جانئے ایسا ہی ہے۔
      جو معلومات مجھ تک پہنچی اور جن اطلاعات سے میرا واسطہ پڑا ،سول سوسائٹی اسلام آباد ،پاکستان کے میڈیا کے اہم رپورٹرز کی جانب سے جو معلومات ذاتی طور پر مہیا کی گئی،تو اس پر سرسری کالم کے بجائے تفصیلی مضمون لکھتا تو شائد وہ میرا آخری بلاگ ہوتا۔
      اور میں یہ نہیں چاہتا تھا۔
      پشتو میں ضرب المثل مشہور ہے کہ
      لگ دے وی
      خو تل دے وی
      (تھوڑا ہو لیکن ہمیشہ ہو)

      اسلئے نہ لکھنا بہتر سمجھا۔شکریہ

      حذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1