تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعرات، 21 نومبر، 2013

چھوٹی چھوٹی

جمعرات, نومبر 21, 2013
عرصہ قبل ایک اردو فورم پر ایک بندے کی تحریر پڑھی تھی۔جس میں اس بندے نے پاکستانی قوم کے نیکیوں کا مذاق کچھ اس انداز سے اُڑایا تھا کہ پاکستانی عوام کی اکثریت جو نیکی کرتی ہیں ،تو ان میں سے چند یہ نمایاں ہیں۔
بھائی موٹر سائیکل کا سٹینڈ اُٹھالو
بہن اپنی چادر سنبھالو،موٹر سائیکل کے پہئے میں پھنس سکتی ہے وغیرہ 

چنانچہ اسی طرح کی بعض باتوں کو جمع کرکے شائد  یہ تاثر دیا گیا تھا کہ پاکستانی قوم یہ خدمت کرکےگویا اسکو بڑی نیکی سمجھتی ہے۔

عموما یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی آپ کے کسی کام پر طنز کرئے تو وہ طنزیہ انداز بندے کے ذہن میں گُھس کر بیٹھ جاتا ہے۔اور وقتا فوقتا آپ کے دماغ میں وہ بات گھوم گھوم کر آنے لگتی ہے۔
کچھ یہی حال میرا بھی تھا،کہ اس بندے کی بات جب سے میں نے پڑھی تھی،تو بس میرے دماغ میں گھس کر بیٹھ گئی تھی۔اور جب بھی میں کسی موٹر سائیکل سوار کو دیکھتا یا کسی سواری پر بیٹھی عورت پر نظر پڑتی تو بس وہ جملہ میرے  ذہن میں گھوم جاتا۔اور میں سوچھنے لگتا کہ اس بندے نے یہ کیا کہہ دیا۔

لیکن اسکے بعد میں یہ کوشش کرتا کہ میں کسی حد تک اس طنز سے اپنے آپ کو بچا سکوں ،لیکن موقع بھی کوئی ایسا نہیں آیا کہ میں وہ چھوٹی نیکیاں کرجاتا۔

آج شام کو جب میں اپنے معمول کے مطابق گھر سے نکلا،تو میں ایک سنگل روڈ پر 80،70 کی سپیڈ سے گاڑی دوڑا رہا تھا کہ اسی اثناء میں ایک موٹر سائیکل سوار میرے بائیں طرف سے آگے کو نکل گیا ۔

اب چونکہ روڈ سنگل تھا اور سامنے سے بھی گاڑیاں تیز رفتاری سے آرہی تھی ۔لھذا جیسے ہی موٹر سائیکل گاڑی کے لائیٹوں کے سامنے آیا تو میں نے دیکھا کہ اسکا سٹینڈ نیچے تھا۔

میرے ذہین میں اسی بندے کی بات گھوم گئی۔ایک طرف خیال آیا کہ اگر اس بندے کو بروقت مطلع نہ کیا تو یہ موٹر سائیکل والا میری گاڑی سے بچنے کیلئے بائیں کو مزید جھک کر چلے گا،کہ موٹر سائیکل کو سائیڈ پر لانے کیلئے اسکو معمولی ترچھا کرنا پڑھتا ہے۔لیکن مجھے یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر اس بندے نے میری گاڑی سے بچنے کیلئے اسی 80،70 کی رفتار میں موٹر سائیکل کو بائیں طرف ترچھا کیا تو پھر اسکی خیر نہیں۔یہ بندہ ایک ہولناک حادثے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
یہ خیال آتے ہی دوبارہ میرے ذہن میں وہ طنز والی بات گھوم گئی۔

اور اسی اثنا میں جب میں نے دیکھا تو سامنے سے بڑی تیز رفتاری سے ایک گاڑی آتے دِکھائی دی ۔لیکن اس سے پہلے کہ گاڑی ہم تک پہنچتی ، میں نے فیصلہ کرلیا کہ جو بھی ہو اس بندے کو بروقت خبردار کرو کہ جناب بائیں طرف معمولی سا بھی جھکنے سے آپ حادثے کا شکار ہوسکتے ہیں۔

چنانچہ فورا ہی میں نے گاڑی کی رفتار بڑھائی تاکہ اسکو مطلع کرکے سامنے سے آنے والے گاڑی سے بچ سکوں۔فورا ہی شیشہ کھولا اور اسکو خبردار کردیا۔

اسی واقعے سے ہی تحریک ملی کہ کیوں نا اسی پر ایک مضمون ہوجائے۔

تو جناب ہوتا یہ ہے ہم گوروں کی معمولی معمولی باتیں لے کر انکی تعریفوں کے پُل باندھنے لگ جاتے ہیں۔لیکن جب یہی کام اپنے کرتے ہیں تو بجائے انکی حوصلہ افزائی کے اُلٹا انکا مذاق اُڑانے لگتے ہیں۔حالانکہ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں اگلے کی زندگی سنوار دیتی ہے۔

عرصہ قبل ایک دوست بنوں سے آکر مہمان ہوئے تھے، تو انہوں نے بتایا کہ سلیم (اسکا دوست) اپنی موٹر لےکر جا رہا تھا کسی دوسرے شہر،راستے میں کسی جان پہچان والے کو دیکھا کہ سڑک کنارے  سواری کی گاڑی کا منتظر ہے اور ساتھ میں ایک زنانی بھی ہے برقع یا بڑی چادر میں۔

چنانچہ سلیم نے گاڑی روک انکو لفٹ کرایا،وہ آدمی آگے سیٹ پر بیٹھ گیا اور وہ عورت پیچھے بیٹھ  گئی۔ ابھی سلیم تھوڑا ہی آگے گیا تھا کہ عورت کے منہ سے خوف ناک چیخ نکل گئی،اور یک دم عورت سیٹ سے گر کر گاڑی کی فرش پر آرہی۔

سلیم نے فورا سے پہلے جھٹکے سے بریک لگائے اور جب اتر کر دیکھا تو اس عورت کے دوپٹے کو  ٹائر کے ساتھ پھنسا ہوا پایا۔

ہوا یہ تھا کہ جب عورت گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ،تو ہیبت یا جلدی کی وجہ سے وہ اپنے چادر کو سمیٹ نہ سکی،اور چادر کا اکثر حصہ دروازے میں پھنس کر باہر رہ گیا تھا۔
چنانچہ عورت کی طبیعت خراب دیکھ کر سلیم واپس بنوں میں ہسپتال کی طرف گاڑی دوڑانے لگا۔

میرے والد صاحب اکثر صبح گھر کے قریب سڑک پر واک کرتے تھے۔ایک دن جب گھر پہنچے تو ہمیں بتایا کہ آج تو اللہ نے موت سے بچا لیا ہے۔

جب پوچھا گیا کہ ہوا کیا ہے ،تو بتایا کہ جب میں سڑک پر واک کر رہا تھا تو تھوڑے فاصلے پر ایک سکول بس گذری ،سکول بس کے ٹائر کے دباؤ کے سبب سڑک سے ایک پتھراُڑکر انتہائی تیزی سے میرے والد صاحب کے سر کے قریب سے گذر کر دور جا گرا۔

ورنہ تو اگر یہ پتھر کسی کے سر میں لگ جاتا تو شائد ہی وہ بچ پاتا۔

لوگ کہیں گے کہ دیکھو سڑک سے پتھر ہٹا رہا ہے۔لیکن یہ خیال نہیں کریں گے کہ یہی پتھر کسی کا گھر اُجاڑ سکتا ہے۔ 

ایک حدیث شریف میں بھی یہی بات ہے کہ ایمان کا ادنیٰ درجہ یہ بھی ہے کہ بندہ راستے سے موذی شے ہٹا دے۔
گویا اسلام بھی ان چھوٹے چھوٹے کاموں کے کرنے کی ترغیب دیتا ہےکہ اسی سے زندگی سنورتی ہے۔

تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں،جن سے انسان کو خوشی وراحت بھی مل سکتی ہے اور انہیں باتوں سے غفلت کی صورت میں نقصان بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔

ایک بار میں اپنے ایک دوست کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا تو اسی دوران اس نے سوال کیا کہ اگر بالفرض آپ کسی مجلس میں چلے جائیں کہ وہاں کے لوگ آپ کو دیکھ کر گھبرا جائیں ۔تو آپ نے کونسا ایسا عمل کرنا ہے کہ وہ لوگ آپ سے خوفزدہ نہ ہوں؟

میں نے جواب دیا کہ جب آپ مجلس میں داخل ہونے لگیں تو سب سے پہلے وہاں سلام کریں۔جس سے وہ لوگ سمجھ جائیں گےکہ یہ بندہ غلط ارادے سے یہاں نہیں آیا ہے۔

پھر اس نے سوال کیا کہ سلام تو اسوقت ہوگا جب آپ انکے قریب پہنچ جائیں ۔
لیکن اگر وہ لوگ آپکو اتنا  دور سے آتا دیکھ رہے ہیں کہ جہاں سے سلام کہنا مناسب نہ ہو،اور وہ لوگ سوچ رہے ہوں کہ یہ اجنبی بندہ کس ارادے سے ہماری طرف آرہا ہے،اب انکے دلوں میں ڈر جو پیدا ہوا ہے تو اسکوکیسے ختم کرنا ہے۔؟

پھر خود ہی انہوں نے زبردست جواب دیا کہ جب آپ دور سے انکے قریب آرہے ہیں تو بس صرف اپنے چہرے پر دھیمی مسکراہٹ لایئے تو وہ لوگ سمجھ جائیں گے کہ جو بھی ہے لیکن بندہ کم از کم ایسا نہیں کہ اس سے خطرہ محسوس کیا جائے۔

اسی طرح ایک حدیث کا اردو ترجمہ بھی کہیں دیکھا تھا کہ جو بندہ کسی دوسرے انسان کو ایسا گھور کر دیکھے کہ جس سے وہ دوسرا بندہ خوفزدہ ہوجائے،تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس گھورنے والے کو ڈرائے گا۔
اللہ تعالیٰ کا ڈرانا کیسا ہوگا بھئی(اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے ۔آمین)

تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں اس جیسی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو رواج دینا چاہئے۔ضروری نہیں کہ ہم  لوگوں سے بڑی بڑی
توقعات رکھیں، کہ جن کے پورا نہ ہونے پر ہم ان پر کوئی سا بھی لیبل لگالیں۔ہم اپنی حد تک کوشش کریں کہ جتنا بھی ہم سے ہوسکے ،ہم چھوٹی چھوٹی اچھائیوں کو اپنائیں۔

کوئی ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں پر ہنسے تو بلا سے ہنس لے،لیکن اسکو ضرور ایک دن ان ہی نیکیوں کا احساس ہوگا۔

11 تبصرے:

  1. میں خود تین چار واقعات کا گواہ ہوں جب ایک موٹر سائکل والے نے دوسرے کو کہا باجی کو کہیں چارد سمیٹ لیں تو جوابی اس بندے کو وہ بے عزتی سہنا پڑی کہ جواب نہیں۔ بقول ان کے زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں :)
    اس تحریر کا لنک بھی دے دیتے کہیں وہ گناہ گار میں ہی نہ ہوں :)

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نہیں علی ،وہ کوئی اور تھا۔اور اسکا لنک پتہ نہین کہاں سے مل ائے گا۔مل بھی جائے گا کہ نہیں۔ @-)
      ویسے اس بندے کو کہنے کے بجائے ڈائرکٹ باجی کو ہی مخاطب کرتے۔ایک تجربہ یہ بھی ہوجاتا۔ :d

      حذف کریں
  2. بہت خوبصورت بات۔ بہت بہت اعلٰی تحریر!!! بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات ہماری تھوڑی سی توجہ اور تھوڑا سا نیکی کا لاپرواہ سا جذبہ کسی کو بہت بڑی خوشی دیتا ہے یا کسی حادثے سے بچا لیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل نئی نوکری پر آنے جانے کے لئیے مجھے سٹاپ پر کھڑے ہونا پڑتا اور بہت دیر دیر تک گاڑی کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر چند ماہ قبل اللہ پاک کی کرم نوازی سے مجھے اپنی گاڑی لینا نصیب ہوا۔ اب جب بھی میں کسی کو دھوپ میں یا سٹاپ پر کھڑے دیکھتا ہوں یا لفٹ لینے کا اشارہ کرتے دیکھتا ہوں مجھ سے رہا نہیں جاتا۔ کیوں کہ مجھے اپنا وہ وقت یاد آتا ہے جب میں بھی انہی سڑکوں پہ کھڑا تھا۔ میری گاڑی گو پرانی ہے لیکن پھر بھی کسی نا کسی کو اس کی منزل تک پہنچانے کے قابل ہے۔

    کچھ دن قبل ایک بنگالی صاحب کو میں نے اسی سٹاپ سے اٹھایا، جب ان کی مطلوبہ منزل پر اتارنے لگا تو انہوں نے پانچ کا ایک نوٹ میری طرف بڑھایا، میں نے مسکراتے ہوئے لینے سے انکار کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میرے لیئے ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن وہ بندہ باقاعدہ جزباتی ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگا بھائی ابھی دنیا میں نیک لوگ موجود ہیں جبھی یہ دنیا قائم ہے۔۔۔۔ بس ان الفاظ کے ساتھ وہ میری گاڑی سے اتر گیا۔ اور جو سکون مجھے محسوس ہوا وہ شاید میں لکھ نہیں سکتا بیان نہیں کر سکتا۔ ایک چھوٹا ساعمل تھا لیکن شاید ساری زندگی اگر میں اپنی گاڑی میں آتاجاتا رہوں تو وہ سکون نہیں مل سکتا جو اس وقت ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہم سب کو نیکیاں کرنے ، نیکیاں بانٹنے کی توفیق عطاء فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. تبصرہ کرنے کا شکریہ راجہ صاحب :)
      میں آپکی بات سے متفق ہوں ۔
      بس تھوڑا خیال رکھئے گا لوگوں کو لفٹ کراتے وقت :-t ،کہ عموما چور ڈاکو کا پتہ نہیں چلتا۔یہاں ہمارے ملک میں ڈاکے وغیرہ زیادہ ہیں۔

      حذف کریں
  3. جناب منصور مکرم صاحب آپ کا مضمون پڑھا گویا آپ نےنیکی کاایک اعلی سبق دیانیکی کی جزاٴ نیکی ہےاس سے مجھےاپنا ایک واقع یاد آگیامیرےپاکستانی پاسپورٹ کی معیادختم ہو چکی تھی معیاد ڈلوانےسفارت خانہ جا رہا تھاکہ ایک بس سٹاپ پرایک ایشیائ نظر آیا میں نےکار روک لی اور اس اجنبی کو بٹھایا یہ اجنبی ادھیڑ عمر کا تھاچہرہ مہرہ سےپڑھالکھااور پر وقار شخصیت کامالک تھاایک دوسرےسے تعارف ہوا میں نے سفارت خانہ جانے کی وجہ بتائ اس نےبھی بتایاکہ اسی شہر جا رہا ہےمیرے ہی شہرمیں رہتا اور ٹکٹوں کا کاروبار کرتا ہےاور یوں ہم ایک دوسرےسے متعارف ہوے یہ کہ وہ پاکستان ائرفورس سے ریٹایرڈآفیسر ہیں جلد ہی منزل مقصود آگئ میں نے پوچھاکہاں اتاروں کہنے لگاآپ کے ساتھ چلونگاجب سفارت خانہ پہنچےمیں ریسیپشن چلا فارم لیا پر کر کے ڈیسک پر پہنچا تو وہ اجنبی بھی آگیامیرے ہاتھ سےپاسپورٹ اورفارم لیا کہنے لگا دو گھنٹہ بعد آنا پاسپورٹ لے جانا میں نے بڑی کوشش کی کہ فیس ادا کروں مگر وہ نہ مانہ اس طرح دنوں کا کام گھنٹوں میں ہوگیااس طرح نیکی کا بدلہ بھی مل گیامیرے ساتھ والی گلی کے ایک شخص کو انکم ٹیکس کا کام پڑگیا اس اجنبی کے دفتر جانےکا اتفاق ہو ا اس شخص نے میرا نام لیاتو اس اجنبی نے اپنی فیس نہں لی اب عرصہ گذر چکا وہ اجنبی اس جہان میں نہیں خدا اسکی مغفرت کرے اسکی یادیں زندہ ہیں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. چشتی صاحب بلاگ پر خوش آمدید :)
      واقعی نیکی کا بدلہ نیکی ہے۔
      حوصلہ افزائی اور تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ x-)

      حذف کریں
  4. تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں،جن سے انسان کو خوشی وراحت بھی مل سکتی ہے اور انہیں باتوں سے غفلت کی صورت میں نقصان بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔
    خوبصورت بات کی یے

    جواب دیںحذف کریں
  5. آخر یہ معاشرہ کب ٹھیک ہوگا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. جب ہر ہر فرد انفرادی طور پر اپنی اصلاح کی کوشش کرے گا۔اور دوسرا بندہ اگر اپنی اصلاح نہ کرسکے،تو دوسرے کی اصلاح کئے ہوئے کو نہ بگاڑے۔ :)

      حذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1