تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 24 دسمبر، 2013

مگر لوگ بڑھ چلے

منگل, دسمبر 24, 2013
گذشتہ دنوں جب میں نے سانحہ میرعلی کے عنوان سے ایک ایسے پروگرام کے احوال لکھے،جس میں شمالی وزیرستان ایجنسی میں ہونے والے فوجی کاروائی کے متاثرین نے اپنی تاثرات و مشکلات کو بیان کیا تھا، تو کافی لوگوں نے اسکو سراہا ،اور اسکو پڑھا ،یہاں تک کہ میرے بلاگ وزٹرز میں ہزار کا ہندسہ دو بار تبدیل ہوگیا ،اور اس نئے بلاگ کے زائرین 5 ہزار سے بڑھ کر 7 ہزار تک پہنچ گئے۔

مختلف لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا،کوئی ڈر گیا، کوئی حیرت زدہ رہ گیا، کسی کے آنکھوں پر پڑے پردے ہٹ گئے، کوئی اسکو بھی پروپیگنڈا کہہ کر آگے بڑھ گیا،کسی کو بے زبانوں پر ظلم نے افسردہ کردیا،کسی کو املاک کی تباہی نے غمزدہ کردیا، کوئی خاموش تماشائی بن کر چلا گیا ،کسی سے عوام کا معاشی قتل نہ دیکھا گیا اور کسی نے میرے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے دعاء دی۔

چونکہ ہر انسان کی اپنی اپنی سوچ ہوتی ہے ،اپنی اپنی پسند ہوتی ہے ،اپنا اپنا نظریہ ہوتا ہے ،اسلئے بحیثیت ایک بلاگر میں ہر اس بندے کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے میری تحریر کو پڑھنے کیلئے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ حصہ نکالا۔

لیکن اسکے ساتھ ساتھ  مجھے ایک ایسی بات یاد آگئی ،جو کہ نامعلوم آج سے کتنے سال پہلے سُنی تھی۔جس کی ایک جھلک مجھے آج محسوس ہوئی،تو وہ بات ذہن میں دوبارہ تازہ ہوگئی ۔

کہتے ہیں کہ ہر چیز کے فائدے اور نقصان دونوں رُخ ہوتے ہیں۔لیکن اگر ایک مقررہ حد سے بڑھ جائے تو پھر نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

سیانےکہتے ہیں کہ مصلحت ایک بہت ہی کارآمد اور مفید چیز ہے ،اسی کے سبب بعض اوقات بڑے بڑے کام لمحوں میں ہوجاتے ہیں،لیکن یہی مصلحت اگر ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر اسکا نام مصلحت نہیں بلکہ (ڈر) رکھ دیا جاتا ہے۔اور جب ڈر کا عنصر انسان کے ذہن میں سرائیت کرنے لگتا ہے، تو پھر اس بندے کی ذہنی صلاحیتوں کو زنگ لگنا شروع ہوجاتا ہے۔

یہی حالت ہمارے عمومی احباب کی بھی ہے، میں نے جب سانحہ میرعلی پر لکھا، تو اکثر وبیشتر انگشت بدنداں رہ گئے کہ یہ بندہ کیا لکھ گیا ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میں بہت پیچھے ہوں، لوگ بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔اس موضوع پر باقاعدہ اخبارات میں بیانات دئے گئے ،لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پریس کانفرنسیں ہوئی ،یہاں تک کہ سیاسی پارٹیاں اپنی دکانیں چمکانے کیلئے فون کرنے لگے۔

مجھے گذشتہ دن کے  پروگرام میں ایک بندے نے کہا کہ وہ ممبران قومی اسمبلی ،جن کو ہم فون ملا کرتھک گئے تھے،آج وہ بھی ہمارے پیچھے پڑے ہیں۔لوگ دعوت نامے پر دعوت نامے دئے رہے ہیں کہ ہمارے احتجاجی کانفرنسوں میں شرکت کی جائے۔

صرف سوشل میڈیا کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو فیس بک میں لوگ کیا کیا نہیں لکھ رہے،اسکی ایک جھلک خود ہی دیکھ لیجئے




















درجہ بالا تصاویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح میرعلی کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جارہی ہے۔میں یہ نہیں کہتا کہ درجہ بالا تصاویر کی باتیں غلط ہیں یا درست۔ صرف میرعلی کے ظلم کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک جھلک دِکھانا چاہ رہا تھا۔

اسکے بعد آتا ہوں اسی فیس بک سے ماخوذ بین الاقوامی میڈیا کی میرعلی کے حوالے سے رپورٹنگ۔
تو لیجئے پہلے نمبر پر وائیس آف امریکہ ڈیوہ ریڈیو/ٹی وی

لیکن ٹھرئیے ! ٹی وی کی رپورٹنگ تو حصول روزگار کا ذریعہ ہوگا،پہلے خود وائیس آف امریکہ کے پشتو نمائندے عدنان بھٹنی کی تصویری البم کی ایک جھلک کیلئے یہاں کلک کیجئے،اور پھر نیکسٹ نیکسٹ دباتے جائیں،اور افسوس کرتے جائیں

اب آگیا ویڈیوز کا نمبر۔

اس فیس بکی ویڈیو میں ہیلی کاپٹر میرعلی تحصیل میں شیلینگ کرتا ہوا سنا جا سکتا ہے۔کسی نے تو اسکو نشر کرنے کی جراءت دکھائی ہے۔








ایک دوسرا وزیرستانی یوں کہتا ہے



 
یہاں پر فیس بک کا باب ختم کرتا ہوں ۔

 اسکے بعد نمبر آتا ہے سوشل میڈیا کے معروف و مشہور سروس ٹوئیٹر کا،تو جناب اسمیں تو صرف ہیش ٹیگ
 میرعلی Mirali
 ہی کافی ہے۔
کیجئے ایک نظر کرم اس پر بھی
اسی طرح سیاست ڈاٹ پی کےپر میری نقل کی گئی تحریر پر پندرہ کے قریب لوگوں نے کس قدر کھلے انداز میں تبصرے کئے،وہ آپ لنک پر کلک کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ رہ گیا عام میڈیا تو اس پر بھی چند لوگوں نے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اور بعض چینلز یا اخباروں نے تو خود بھی رپورٹنگ کی ہے۔ملاحظہ کیجئے
خیبر نیوز کی ایک ویڈیو رپورٹ
Gomal University students demands end to NW operation: Report by Naseer Azam http://www.khybernews.tv/video_detail.php?id=MTQ0#sthash.zmiFqqmq.5P5mb3O4.dpuf
وال سٹریٹ جرنل کچھ یوں کہتا ہے
جنگ نیوز کچھ یوں کہتا ہے

اسی طرح ڈان نیوز،اور دوسرے اداروں نے بھی کچھ کچھ اس واقعے کی رپورٹنگ کی۔
AVT Khyber  نے تو باقاعدہ علاقائی خبروں میں ایک متاثرہ شخص کا انتہائی سخت انٹرویو تک نشر کردیا۔

 ان تمام باتوں سے غرض یہ ہے کہ احتیاط اچھی چیز ہے اور مجھے اپنی دوستوں کی فکرمندی اچھی لگی،وہی بات کہ لوگ بہت کچھ بول چکے اور بتا چکے۔

 میں کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن گذشتہ دن کے پروگرام میں ایک شخص نے باقاعدہ مجھے نام لیکر انتہائی افسردگی اور شکوئے کے انداز میں مخاطب کیا تم لوگوں نے بھی ہماری آواز نہ اُٹھائی۔

 ایک بندے نے یہ اعتراض اُٹھایا کہ کبھی فوج کیلئے بھی اسی انداز میں لکھا ہے؟ تو جناب عرض ہے کہ چڑھتے سورج کے پجاری بہت ہوتے ہیں۔
پورا پاکستانی میڈیا ہی آئی ایس پی آر کا ہے،تو کیا وہ اسکے لئے کافی نہیں۔

 لوگ باقاعدہ عملی میدان میں اترے ہیں،اور متاثرین میرعلی کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اس لئے مجھے تو اپنی یہ تحریر متاثرین میرعلی آپریشن کیلئے لوگوں کی اُٹھائی گئی صداؤں میں فقط ایک کمزور سا نعرہ محسوس ہوتا ہے۔


9 تبصرے:

  1. ڈر اور احتیاط کے درمیاں کا فرق اگر ہم جان جائیں تو پھر حق اور باطل کا فرق ظاہر کرنے کے لئے قلم اُٹھانے میں کوئی دقت محسوس نہیں کریں گے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جب بات حد سے گزار جائے تو تنگ آمد بہ جنگ آمد والی بات تو ہوتی ہی ہے ۔ظلم کے خلاف اآواز اٹھانی ہی چاہئے کیونکہ ظلم کرنا اور سہنا دونوں غلط ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. Pakistan Army ko Operation se pehly poory area me ittila krni chaiye. Pakistan

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

      حذف کریں
    2. عمران اعوان صاحب
      بلاگ پر خوش آمدید
      جی بالکل درست کہا آپ نے ،لیکن مسلمانوں کی فوج اور اس قدر انسانی ہمدردی۔۔۔

      حذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1