تازہ ترین
کام جاری ہے...
منگل، 28 جون، 2011

فیس بک کے نقصانات

منگل, جون 28, 2011
جاوید چودھری صاحب ایک معروف اور مشہور کالم نگار ہے۔ ایک مشہور روزنامہ میں اکثر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فیس بک کی حمایت میں ایک کالم لکھا۔ جس میں انہوں نے فیس بک کے استعمال کی
ترغیب ایک مسیحا سمجھ کر دی۔

اور اپنا پیج فیس بک میں بنا ڈالا۔

چنانچہ میں نے مناسب جانا کہ اسکے کالم کا جواب دیا جائے اور اسکو اپنے اس سوچ اور فکر پر نظر ثانی کی دعوت دی جائے تو کچھ برا نہ ہوگا، بلکہ شائد بہت مناسب ہو۔

پھر میں نے خیال کیا کہ اگر یہ باتیں اور دوستوں کو بھی معلوم ہوجائیں تو فائدہ سے خالی نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس خیال کے تحت میں نے یہ مضمون شائع کردیا۔۔

محترم جناب جاوید چودھری صاحب کو ایک مشورہ

جناب چودھری صاحب میں اکثر آپکے کالم پڑھتا ہوں۔ اور آپکے کالم پڑھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شائد آپ اس ملک کے فلاح کیلئے سنجیدہ ہیں۔

 آپ کے فیس بک والے کالم کو میں نے پڑھا ۔ آپکی بات اچھی ہے کہ بجائے صرف بایئکاٹ کرنے، ہم کو انکا بھرپور مقابلہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ کفار کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح مسلمان ہمارے مقابلے کے نہ رہیں۔

آپ نے اپنے کالم میں کہا کہ یا تو ہم کو فیس بک کے اندر ہی رہ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور یا ہم کو کوئی دوسرا سوشل نیٹ ورک بنانا چاہیے۔

آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ جسطرح آپ نے فیس بک میں اپنا پیج کھولا ہے۔ اسی طرح کئی دینی اداروں یا تحریکوں نے بھی اپنے اپنے پیج کھولے تھے۔ ہر ایک ادارہ اپنے طور پر اچھا کام کرتا تھا ۔ لیکن جب بھی ان دینی اداروں یا تحریکوں کا کردار فیس بک والوں کو نہیں بھایا تو ان پیجوں کو بلاک کردیا گیا۔ اور یا چند منچلوں اور شریر غیر مسلموں نے اس پیج کو رپورٹ کیا تو وہ پیج مکمل بلاک کردی گئی۔ اور اس طرح ان تحریکوں کا سارا کام اور ساری محنت پانی میں بہہ جاتی۔

وجہ یہ ہے کہ آپکے اپنے پیج پر کلی اختیار آپکا نہیں ہے۔ بلکہ بلا کسی وجہ بھی فیس بک آپکا  پیج بلاک کر سکتی ہے۔ اور آپکو اپنے تمام ممبروں اور ڈیٹا سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔

 البتہ آپکی دوسری بات اچھی ہے کہ اگر ہم لوگ خود اپنا ایک سوشل نیٹ ورک قائم کریں تو وہ مکمل ہمارے اختیار میں ہوگا ، کہ اس سے قابل اعتراض مواد ہم ختم کر سکتے ہیں۔ نیز ہمارے نیٹ ورک میں پالیسی ہمارے اپنے قوانین اور قواعد کے مطابق ہوگی۔ نیز اسکا یہ فائدہ ہوگا کہ ہم کسی بھی گستاخی کے مرتکب کو بلاک کر سکیں گے، الغرض وہ مکمل ہماری کنٹرول میں ہوگی۔

دوسری بات کیلئے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ اگر بالفرض کوئی آپکو ماں کی گالی پہلی بار دے تو آپکے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور آپکی غیرت اور حمیت اسکو مارنے اور اسکو گالی دینے سے روکنے کیلئے پھڑکتی ہے۔

لیکن اگر وہ بندہ ہر روز آپکو گالی دے تو ایک دن ضرور ایسا آئے گا کہ آپ اسکے گالی دینے کو معمول کہہ کر ٹال دیں گے اور گالی کے خلاف کوئی ردعمل آپ ظاہر نہیں کریں گے۔

اسی طرح فیس بک کی مثال ہے کہ ہر لمحہ اور ہر روز کوئی نہ کوئی گستاخانہ پیج فیس بک میں بنایا جاتا ہے اور پھر فیس بک کے مسلمان اسکو ڈیلیٹ کرنے کیلئے فیس بک والوں کو کہتے ہیں تو پھر انکی مرضی ہوتی ہے کہ اس پیج کو ڈیلیٹ کریں یا اس کو رہنے دیں۔

روز روز اس طرح کے پیج دیکھ کر آخر کار انسان ان واقعات کو روز کا معمول سمجھ لیتا ہے اور پھر ان گستاخانہ حرکات کو مسلمان عام معمول قرار دے کر بےحس ہوجاتا ہے اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتا ہے اور کوئی ردعمل نہیں کرتا۔

 اور عام اسلامی قانون کے مطابق جو آدمی عاقل ہو کر قرآن یا اللہ تعالیٰ یا نبی کریم صل اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ و بارک و سلم کی شان میں گستاخی کرے تو اسکی سزا شریعت کے مطابق موت ہے۔

خود اپنے زمانہ میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ و بارک و سلم کی شان میں جو شخص گستاخی کرتا تو فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کے غلاف کے اندر سے بھی اسکو کھینچ کر قتل کیا گیا، حالانکہ اس روز عام کافروں کیلئے معافی کا اعلان ہوا تھا۔

اور یہ بات ایک مسلمان کیلئے انتہائی خطرناک ہے کہ وہ اتنا بے حس ہوجائے کہ کوئی کتاب اللہ یا مسلمانوں کے دیگر مذہبی بنیادی اور اہم ارکان کی گستاخی کرئے اور یہ مسلمان اتنا بے حس ہوں کہ واجب القتل بننے والے ملزم کے خلاف کوئی رد عمل تک نہ کریں۔ ظاہر ہے روز روز کی گستاخی دیکھ دیکھ کر بےحس اور بے غیرت جو بنا ہوتا ہے۔

لہٰذا اس لئے بھی فیس بک کو ترک کرنا چاہیے۔ تاکہ آدمی اتنا دیوث نہ بنے کہ وہ اسلام کے بنیادی ارکان کی گستاخی دیکھ کر اپنا بھرپور رد عمل ظاہر نہ کرسکے۔

تیسری بات جو کہ اگرچہ میری ذات تک محدود ہے لیکن میں پھر بھی اسکو آپکے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں ،

 وہ یہ ہے کہ میں بھی پہلے فیس بک کو استعمال کرتا تھا ۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے میں نے اسکا بائیکاٹ کردیا۔ چند دن بعد میں نے پھر فیس بک کو استعمال کرنا چاہا لیکن اس بار میں نے سنت پر عمل کرتے ہوئے پہلے استخارہ کیا،

تو رات کو ایک خواب دیکھا کہ میرے سامنے ایک سیاہ پہاڑ ہے اور اس پہاڑ کے اندر ایک سیاہ غار ہے ۔ میں جب اس غار میں داخل ہوا تو اس غار کے درمیان چند لوگ نظر آئے جنہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔

اب اس دوران میں نے دیکھا کہ لاؤڈ سپیکر سے بار بار اعلان ہو رہا ہے کہ سفید کپڑوں والے لوگ اس غار سے نکل جائیں ، اور یہ اعلان میں بار بار سن رہا ہوں ۔

اسکے بعد میں جاگ گیا تو میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ سفید کپڑوں والے یا سفید پوش لوگ صرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایمانی نور ہے ۔ اور اسی ایمان کے بابت مسلمانوں کے پاس قیامت کے دن بھی نور ہوگا ۔ جبکہ کفار وغیرہ اس نور سے محروم ہونگے۔اور ان سفید لباس والے مسلمانوں کو بار بار لاؤڈ سپیکر سے خبردار کیا جاتا رہا کہ وہ اس کالے اور تاریک غار سے باہر نکل جائیں ، تو ظاہر ہے وہ کالا اور تاریخ غار اس استخارہ میں فیس بک ہی دکھایا گیا ہے۔

لہٰذا اس خواب کے بعد میں نے فیس بک کے دوبارہ استعمال کا ارادہ ترک کردیا۔ اگرچہ اس خواب کا تعلق ہو سکتا ہے صرف مجھ سے ہو لیکن میں نے پھر بھی آپکے ساتھ اپنا تجربہ شئیر کرنا چاہا کہ میں نے کیوں فیس بک کا استعمال چھوڑا۔

لہٰذا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ اگر ہم خود اپنا ایک سوشل نیٹ ورک بنائیں تو اسکا بہت فائدہ ہوگا، فیس بک کئی سالوں میں مقبول ہوئی ہے ، تو انشاء اللہ یہ نیٹ ورک بھی مقبول ہو گا ایک دن۔

یا کسی ایسے نیٹ ورک میں اپنا پیج بنائیں کہ وہ کم از کم ملکی یا مسلمانوں کی ملکیت ہو۔

غیروں پر انحصار کرنے کے بجائے ہمیں ہر معاملے میں خود کفیل ہونا چاہیے۔ اور ہمارے خود کفالت فیس بک کے استعمال میں نہیں بلکہ اپنے نیٹ ورک بنانے میں ہے۔ آپکا قیمتی وقت ضائع کرنے پر معذرت کرتے ہوئے اجازت چاہتا ہوں۔
والسلام
آپکا خیر خواہ
درویش خُراسانی


نوٹ: فیس بک کے بارئے میں میرا دوسرا کالم(فیس بک ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے) بھی ضرور پڑھیں۔شکریہ

10 تبصرے:

  1. جزاک الله برادر درویش خراسانی !
    نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی محبت ایک مسلمان کے لئے ہر چیز سے بڑھ کر ہونی چاہئے. کیا پتا آخرت میں یہ محبت ہی کام آجائے. جب آپ کسی ایسے شخص، تنظیم یا ادارے کے ساتھ کام کرتے ہیں جو توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو آپ غیر محسوس طریقے سے توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں. میں نے ایک پوسٹ میں جاوید چوہدری کی فیس بک کی اس حمایت پر تنقید کرتے ہوے سوال کیا تھا کہ اگر ایکسپریس نیوز چنیل سے ایک انتہائی جھوٹی اور گمراہ کن خبر جاوید چوہدری صاحب کے والد یا والدہ کے بارے میں نشر کرے اور وقتاً فوقتاً کرتا رہے تو کیا تب بھی جاوید چوہدری ایکسپرس نیوز چینل سے وابستہ رہیں گے ؟ اپنے والد کی عزت کے لئے معیار الگ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے معیار الگ کیوں ہیں؟ اس ساری مہم کا مقصد مسلمانوں میں توہین رسالت کے ضمن میں Desensitization پیدا کردی جائے . یہ عمل بار بار کیا جائے تاکہ ہم بے حس ہو جائیں . اس مقصد میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں. الله تعالیٰ ہمارے کمزور ایمان کی حفاظت فرمائے. آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. بالکل ڈاکٹر صاحب یہی میں کہنا چاہ رہا تھا۔جاوید چودھری کے بارے میں آپکا ذکر کردہ پوائنٹ زبردست ہے

    جواب دیںحذف کریں

  3. [...] بھائی کے بلاگ پہ جانے کا اتفاق ہوا اور میں نے ان کی یہ والی پوسٹ پڑھی تو مجھے احساس ہوا کہ میں غلط ہوں اور درویش بھائی [...]

    جواب دیںحذف کریں

  4. جزاک الله بھائی درویش خراسانی !

    جواب دیںحذف کریں

  5. جزاک اللہ خیر بھائی جان میں مکمل طور پر آپ کی بات سے متفق ہوں لیکن کیا اس طرح ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے؟؟؟ حالانکہ فیس بک پر ہم اپنے بلاگ ، جہادی مواد اور دیگر بہت کچھ شئیر کرسکتے ہیں اور اس کی سب سے بڑ ی مثال ایک بھائی کی ہےجنہوں نے Nasheed's library نام کا پیج بنایا ہو ا ہے اور وہ اس کے ذریعے عام مسلمانوں تک بھی وہ چیزیں پہنچا رہے ہیں جن کا لبرل طبقے میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
    باقی میرا آپ سے کوئی اختلا ف نہیں ہے الحمد للہ
    بس صرف اپنی ذاتی رائے بیان کی ہے اور اگر کوئی بات بری لگی ہو تو پیشگی معذرت قبول کر لیں اور ایک با ر مسکرا کر ، بے وقوف سمجھ کر معاف کردیجے گا ۔
    والسلام
    آپ کا بھائی

    جواب دیںحذف کریں

  6. محترم بھائی سوپر ملک صاحب:


    بلاگ پر خوش آمدید
    پہلی بات تو یہ کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت نکال پر میرے بلاگ پر تشریف لانے کا بہت شکریہ
    میرے خیال میں اگرچہ اس طرح مسائل مکمل طور پر حل تو نہیں ہونگے ،ہاں البتہ کچھ کمی ضرور آجائے گی۔
    فیس بک پر جہادی بلاگز یا اسطرح کے دینی پیجز بنانے والے واقعی عظیم کام کر رہے ہیں لیکن یہ حضرات خود ہر وقت اس خطرے کی زد میں ہوتے ہیں کہ اب انکا اکاونٹ بلاک ہو ا۔
    خود میں اور میرے ساتھی تقریبا ایک سال تک فیس بک استعمال کرچکے ہیں،لیکن وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ بلاک کر دیا گیا۔
    میں نے یہ کالم ایک عام آدمی کو مد نظر رکہ کر لکھا ہے ،ظاہر ہے بعض صورتوں میں اسکا استعمال مفید بھی ہو لیکن عمومی طور پر مجھے اسکا استعمال کچھ فائدہ مند نظر نہیں آرہا ہے۔،
    مثال کے طور پر اگر سارے لوگ اسی بہانے فیس بک استعمال کریں کہ جی ہم تو یہ اسلامی پیج دیکھتے ہیں تو کیا اس دوران وہ فیس بک کی ہتھ کنڈوں سے محفوظ رہتے ہیں۔؟؟؟


    فیس بک کے بجائے اگر کوئی دوسرا سوشل نیٹ ورک استعمال کیا جائے تو کیسا رہے گا۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

  7. بھائی جواب دینے کا شکریہ اس سے انسان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ چلو آپ نے ہماری بات کو اس قابل تو سمجھا کہ کم ازکم جواب دے دیا جائے۔
    جہاں تک فیس بک کو چھوڑنے کا تعلق ہے تو فیس بک بلاشبہ ایک نقصان دہ چیز ہے اور غیر مسلموں کی بنائی ہوئی چیز ہے لیکن کمپیوٹر بذات خود کس کی ایجاد ہے؟ موبائل کس کی ایجاد ہے ؟ اگر فیس بک والے ایک اکاؤنٹ کو صرف اس لیے بلاک کر دیں کہ اس میں جہادی یا اسلامی مواد تھا تو کیا ہوا؟ کوئی دوسرا اکاؤنٹ بنا کر پھر سے وہ کام شروع کیا جاسکتا ہے اور اکاؤنٹ بلاک کرنا کوئی شرعی دلیل تو نہیں ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر ہوسکے تو تمام ساتھیوں کو کوئی شرعی دلیل فراہم کردیں تاکہ فیس بک کو چھوڑنے کا کوئی جواز بھی ہو۔
    کوئی بات بری لگے تو معاف کر دیجیے گا ۔
    اور اگر معاف نہ کر سکیں تو
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔
    ۔

    دیوار سے دو تین ٹکریں مار کر اسے مزاق سمجھ کر پھر معاف کر دیجیے گا ۔

    جواب دیںحذف کریں

  8. آپ نے شائد میرے کالم کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔آپ نے خود اقرار کیا ہے کہ فیس بک نقصان دہ ہے،میں کہتا ہوں اسکے چند فوائد بھی ہیں لیکن اسکے فوائد سے اسکا نقصان زیادہ ہے۔


    لھذا اسی لئے ہم اسکے کثیر نقصان کو دیکھ کر اسکے معمولی فوائد سے صرف نظر کرکے اسکے استعمال کو اچھا نہیں جانتے۔


    رہی یہ بات کہ یہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے تو میرے خیال میں صرف اسی بات پر کسی چیز کے استعمال کو ترک کرنا کچھ عقلمندی نہیں ہے،خاص کر جب کہ مسلمان اس جیسے معیار کو میدان میں نہیں لاسکتے۔


    رہی اکاونٹ بلاک کرنے پر نئی اکاونٹ بنانا،تو جناب یہ بات میں نے اسلئے کہی کہ وہ آپ کو کام کرنے نہی دیتے نیز ایک سال کی محنت ایک دن میں واپس کیسے آسکتی ہے؟۔
    کیا اسکے علاوہ کوئی دوسرا میدان نہیں کہ بندہ اس جگہ اپنی محنت صرف کرئے۔؟
    میں جب پہلے فیس بک استعمال کرتا تھا تو اس وقت میری بات بہت سے لوگوں تک پہنچتی تھی لیکن اسمیں شائد وزن اتنا نہیں ہوتا تھا، جبکہ اسکے برعکس بلاگ پر اگر کوئی میرے کالم پڑھتا ہے تو ضرور وہ ایک فکر لے کر جاتا ہے۔یہ مانتا ہوں کہ یہاں رش کم ہے مگر جو اتے ہیں تو سنجیدہ ہوتے ہیں۔


    اکاونٹ بلاک کرنے کی شرعی دلیل کی بات تو جناب جہاں آپکی محنت بے کار جاتی ہے تو یہ تو عقل بھی کہتی ہے کہ ایسی جگہ نہ جاو۔


    حیرانی ہوتی ہے کہ یہ فیس بک کے استعمال پر اتنا زور کیوں ؟؟؟؟
    دوسرے سوشل نیٹ ورک بھی تو ہیں جہاں فیس بک جیسی صورت حال نہیں ہے ،تو لوگ وہاں کیوں نہیں جاتے۔خواہ مخواہ اسی بدبودار میدان مین بیٹھنا پسندکرتے ہیں ؟
    جو لوگ (کام ) کرتے ہیں تو انکی بات الگ،وہ تو میخانے میں بھی کام کر جاتے ہیں ، لیکن عوام کیلئے یہ سخت نقصان دہ اور بے حس کرنے والی جگہ ہے۔عام لوگوں پر فیس بک کے استعمال کے جو مضر اثرات پڑتے ہیں، وہ بالکل میٹھے زہر کی طرح ہوتا ہے کہ ظاہر میں تو کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن لوگوں کی غیرت و حمیت کی جڑیں اکھاڑ دیتا ہے
    بھائی بلا سبب کیوں کوئی کسی پر غصہ کرئے، یہ تو پھر بات نہ ہوئی نا۔
    آپکے کومنٹس کا میں خیر مقدم کرتا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
  9. اسلام علیکم
    آپ کی بات دل کو لگتی ہے-جاوید چوہدری اکثر کم عقلی کی بات کرتے ہیں اس لئے بھی آپکی بات میں وزن ہے :)
    مجھے ف ب پر ایک سال ہی ہوا ہے- مجھے بلاگز کا تجربہ نہیں ہے- ف ب کی بجائے دوسرا نیٹ ورک اچھا خیال ہے -

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1