آج کل پولیو کے قطروں کے بارئے میں انتہائی گہما گہمی نظر آرہی ہے ۔صوبہ خیبر پختون خواہ کے چیف جسٹس کا حکم ہے کہ جو بھی بندہ کیس لے کر عدالت آئے گا تو اسکے پاس اپنے بچوں کو پولیو قطرئے پلانے کا سرٹیفیکیٹ بھی پیش کرنا ضروری ہے۔
اسکے ساتھ ڈی سی اوز کو یہ حکم نامہ بھی جاری کیا گیا ہے کہ جو والدین بچوں کو پولیو قطرئے پلانے سے انکاری ہیں تو انکے لئے فورا ''سرکاری مہمان خانے'' میں جگہ کا بندوبست کیا جائے۔
Polio drops |
صوبہ پختون خواہ کے دور دراز علاقوںمیں بھی اسی طرح کے مہم چلائے جا رہے ہیں۔ چنانچہ وہ علاقے جہاں پینے کا پانی اور دیگر بنیادی ضروریات تک میسر نہیں ،وہاں تک یہ قطرئے پہنچا کر اس مہم کو سرانجام دیا جا رہا ہے۔
پچھلے دنوں ملا جیون سے ملاقات ہوئی ، باتوں باتوں میں اسی مہم کا ذکر چل پڑا تو ملا جیون نے اسکی بڑی مخالفت کی ۔اور کہا کہ کراچی میں حلال فاونڈیشن کے زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا۔
سیمینار سے بڑئے بڑئے اہل علم نے خطاب کیا ۔جب پولیو کے قطروں کا ذکر آیا تو وہاں اس بات کا ذکر ہوا کہ علماء میں سے مفتی تقی عثمانی صاحب اور ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے بھی پولیو کے قطرئے پلانے پر زور دیا۔
اب ملا جیون سے برداشت نہ ہوا اور وہ اپنی پچھلی نشست سے اٹھ کر سٹیج پر آئے اور مایئک سنبھال لیا۔
ملا جیون نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ پاکستان جب عالمی ادارہ صحت سے پولیو قطرئے لیتا ہے تو اسکو لیبارٹری میں چیک کیوں نہیں کرتا ۔یا خود ملکی سطح پر کیوں اسکو نہیں بناتا۔
ملا جیون نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ مجھے اس بات پر شدید تحفظات ہیں کہ پاکستان جب عالمی ادارہ صحت سے پولیو قطرئے لیتا ہے تو اسکو لیبارٹری میں چیک کیوں نہیں کرتا ۔یا خود ملکی سطح پر کیوں اسکو نہیں بناتا۔
دوسری بات یہ کہ اخر اس پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے ۔ جبکہ اسکے مقابلے میں دوسرئے بیماریاں جو کہ جان لیوا ہیں ، انکی فکر ہی نہیں کی جاتی۔
پورے کراچی میں جذام کے تقریبا چالیس ہزار مریض ہیں۔ جبکہ انکے ہسپتالوں میں علاج نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ انکی انگلیوں سے گوشت کے ٹکڑئے گر رہے ہیں ۔پیپ اور خون ان سے بہہ رہا ہے۔ کوئی انکے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔متعدی بیماری ہے۔ یہ لوگ کسی کام کاج کے نہیں رہے۔ آخر انکا علاج تو نہیں کیا جاتا لیکن پولیو پر اتنا زور دیا جارہا ہے ۔حالانکہ پورئے سندھ میں پولیو کے صرف چھ کیس سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح یرقان کی مثال لیجئے ، ایک ایک انجکشن دس ہزار سے اوپر اوپر کی ہے۔لاتعداد مریض ہیں جو کہ اس کے سبب مر رہے ہیں۔متعدی بیماری ہے۔لیکن حکومت ان مریضوں کیلئے کچھ نہیں کرتی۔
اسی طرح اور بھی بہت سی جان لیوا بیماریاں ہیں ،جن میں مبتلاء مریضوں کو کوئی سہولت نہیں دی جارہی ہے۔
بم دھماکے میں زخمیوں کے علاج کیلئے ڈاکٹروں کی منتیں کرنا پڑتی ہیں،اسکا کوئی نہیں پوچھتا۔
آخر یہ پولیو پر ہی اتنا زور کیوں ۔
مغربی اقوام کہتے ہیں کہ یہ قطرئے ہم آپکو اسلئے پلا رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ مرض آپ لوگوں سے منتقل ہو کر ہم میں سرائیت کر جائے۔
ملا جیون کے بقول اسکا آسان علاج یہ ہے کہ جسکو مغرب کا ویزہ دو ، اسی وقت اسکو قطرئے پلائے جائیں۔
مغربی اقوام کہتے ہیں کہ یہ قطرئے ہم آپکو اسلئے پلا رہے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ مرض آپ لوگوں سے منتقل ہو کر ہم میں سرائیت کر جائے۔
ملا جیون کے بقول اسکا آسان علاج یہ ہے کہ جسکو مغرب کا ویزہ دو ، اسی وقت اسکو قطرئے پلائے جائیں۔
افتخار اجمل صاحب کی بات کہ اگر ہم جہالت کے سبب پولیو قطرئے نہیں پلاتے تو ہمارے لئے تعلیمی ترقی کا بندوبست کیا جائے۔جب معاشرہ تعلیم یافتہ ہو جائے گا تو ہر آدمی خود ہی پولیو کے قطرئے پلائے گا۔
لیکن اس مشورئے پر "آقا ء" غصہ ہوجاتے ہیں اور انکے چہرئے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ظاہر ہے اگر معاشرہ سو فیصد تعلیم یافتہ بن جائے تو پھر انکی چالیں دھری رہ جائیں گی۔
ملا جیون کہتا ہے کہ ایک بار میں ہسپتال گیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ پولیو متعدی بیماری ہے۔ بس اس پر ملا جیون انتہائی غصہ ہوئے اور ڈاکٹر سے کہا کہ متعدی کا مطلب جانتے ہو کسے کہتے ہیں؟
پولیو زدہ انسان کے ساتھ تو ہمارا عام اختلاط ہوتا ہے ،لیکن کہیں یہ نہیں سنا گیا کہ فلاں کو فلاں سے پولیو ہو گیا۔میڈیکل کالج میں پڑھا ہے یا ڈنگر خانے میں!
کہتےہیں کہ اسکے بعد ڈاکٹر آگے نہ بول سکا۔
کہتےہیں کہ اسکے بعد ڈاکٹر آگے نہ بول سکا۔
ملا جیون کہتا ہے کہ سندھ بلوچستان میں ایسے علاقے ہیں ،جہاں پینے کا پانی میسر نہیں ۔لوگ وہ پانی پیتے ہیں جن میں جانور پیشاب کرتے ہیں۔ملا جیون نے خود بھی ایسے ہی ایک جو ہڑ کا پانی پیا ہے کیونکہ جان بچانا فرض ہے۔جانور پیاس کے سبب ایسی آوازیں نکالتے تھے کہ آدمی کا کلیجہ پھٹنے لگتا تھا۔
چنانچہ ملا صاحب کی کوششوں سے وہاں صاحب ثروت لوگوں کی مدد سے ایک ادارے کے ماتحت متعدد پینے کے پانی کے تالاب بنائے گئے۔لیکن جیسے ہی اغیار کو اس کاوش کی اطلاع ملی تو اس ادارئے پر پابندی لگائی گئی جو کہ تاحال برقرار ہے۔
ان کاموں کیلئے نہ ہی کو ئی فنڈ ہے اور نہ ہی کوئی پلان۔ نہ کمیٹیاں ہیں اور نہ ہی عدالتی احکامات۔
اگر ہم اپنے پاب داداوں پر نظر دوڑائیں تو انکے سات سات ،اٹھ اٹھ بچے ہوتے ہین ،لیکن انہی کی آج کل کی نسل دیکھو تو درجن درجن لڑکیاں تو ہوتی ہیں لیکن لڑکا کوئی نہیں ہوتا۔
معمولی معمولی بیماری پر عورت کو اپریشن پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ بچے پیدا نہ کرسکے۔
ملا جیون نے کہا کہ دنیاء میں حلال اور حرام کا تعین کیا گیا ہے۔ لیکن بعض امور مشتبہ بھی ہیں ۔اور امور مشتبہ کا یہ حکم ہے کہ جب تک اسکی شبہات کا ازالہ نہیں ہوتا ۔تو ایسے امور کو اگر صریح حرام نہیں تو اس پر توقف ضرور کیا جائے گا۔ ہاں جب شبہات کا ازالہ ہوجائے اور بات صاف ہوجائے تو پھر البتہ اسپر حلال یا حرام کا فتویٰ لگتا ہے۔
چنانچہ ملا جیون کے بقول پولیو کے قطرے اس وقت تک نقصان دہ ہیں اور اسکے استعمال سے پرہیز ضروری ہے جب تک اسکے اجزاء کی وضاحت مکمل طور سے نہ کی جائے,اور شکوک و شبہات کو دلائل سے زائل کیا جائے۔لیکن شاید ملا جیون کی یہ آرزو کبھی بھی پوری نہ ہوسکے۔
بہت عمدہ۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںتقی عثمانی صاحب اور دوسرے علما اور اکابرین کو اس معاملے میں حکومت پر اندھا اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
اس مضمون میں نہایت دلچسپ سوال اٹھا ئے گئے ہیں۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی دیہی سندھ اور دیہی پنجاب میں ایک وباء کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ جزام کے حوالے سے آپ خود اس مضمون میں سوال اٹھا چکے ہیں۔ دیگر متعدی امراض تو دور کی بات ہے حکومت بنیادی انسانی صحت کے لیے کیا کچھ کر رہی ہے جو اسے پولیو کی اتنی فکر ہورہی ہے؟ جب کہیں بھی انسانی جان اور مال کا کوئی احترام نہیں ہے بلکہ مجرمانہ اور سوچی سمجھی غفلت ہے تو پھر پولیو پر اتنا زور کیوں؟
پولیو ہی کیا اس دجالی دور میں کسی بھی چیز کو جس کے بارے میں اشتہار دیے جارہے ہوں کبھی بھی سیدھی سادھی حقیقت سمجھنا میرے نزدیک ایک بڑی غلطی ہوگی۔
جب ہم دوستوں کو اس تنظیم کا یہ مشکوک طریقہ کار بتلا کر ان سے اعراض کرنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی تحقیقی ثبوت لاؤ کہ واقعی ان قطروں میں دونمبری کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے انڈیا کے کئی ڈاکٹروں کی اس پر ریسرچ نیٹ پر بھی پڑی ہوئی ہے اور پاکستان کو دی جانے والی ایڈز میں ایکسائر ویکسین بھی کئی دفعہ سامنے آئی ہیں ، لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ فی الحال اس قطرے پر مکمل تحقیق ابھی سامنے نہیں آئی، لیکن چونکہ اس تنظیم کا کام مختلف وجوہات جن کا آپ نے بھی اوپر ذکر کیا' مشکوک ہے اور شبھات اور مشکوک کاموں سے بچنے کا ہمیں شرعی طور پر بھی حکم ہے اس لیے بچنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ آپ نے یہ بہت اچھی بات فرمائی۔
جواب دیںحذف کریں"ملا جیون نے کہا کہ دنیاء میں حلال اور حرام کا تعین کیا گیا ہے۔ لیکن بعض امور مشتبہ بھی ہیں ۔اور امور مشتبہ کا یہ حکم ہے کہ جب تک اسکی شبہات کا ازالہ نہیں ہوتا تو ایسے امور کو اگر صریح حرام نہیں تو اس پر توقف ضرور کیا جائے گا۔ ہاں جب شبہات کا ازالہ ہوجائے اور بات صاف ہوجائے تو پھر البتہ اسپر حلال یا حرام کا فتویٰ لگتا ہے"۔
زبر دست تحریر ہے۔ اللہ آپکو جزائے خیر دے۔ ویسے اب تو پولیو کے قطروں سے ہونے والے نقصانا ت کے کیسز میڈیا پر بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک نومولود بچے انتقال ہوگیا پولیو کے قطرے پلانے سے یہ جیو پر نشر ہوا۔ اور کون نہیں جانتا کہ یہ روٹری کلب والے فری میسنری ہیں۔
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ جناب. جزاک اللہ خیرا.
جواب دیںحذف کریںبہت خوب تحریر ہے جناب.
پولیو کا خصوصی ہدف پشتون علاقے
جواب دیںحذف کریںhttp://ummatpublication.com/2012/12/18/news.php?p=news-16.gif
یہ ملا جیون کون ہیں؟ انکو چڑیا گھر بھیج دیں.
جواب دیںحذف کریںخوشی ھوئی کہ ملا جیون ایسا سوچتا ہے۔
جواب دیںحذف کریں:-? :-? :-?
حذف کریںمیرا خود اطمنان قلب ہے جس چیز کے لیے امریکہ مسلمان ملکوں میں فنڈنگ کر رہا ہو اس میں ضرور کو ئی نہ کوئی گڑ بڑ کوگی ،امریکہ وقت کا دجال ہے ، چند مولویوں کا کیا انھوں نے وہ کبھی وقت کے طاغوتوں کے خلاف کون سی رہنمائی کی ہے عوام کی ۔
جواب دیںحذف کریںعدنان سرور صاحب بلاگ پر خوش آمدید :)
حذف کریںواقعی یہ بات قابل غور ہے کہ ایک طرف تو امت مسلمہ کا سخت ترین دشمن ،اور دوسری طرف اتنی رحم دلی
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے