عرصہ ہو ا سُستی کے گہرئے سائے ہمارئے دل ودماغ پر چھائے ہوئے تھے۔کمپیوٹر آن کرکے صرف چوہے (ماؤس) سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتا تھا ۔کلیدی تختہ کو دور رکھا تھا۔کوئی ایک آدھ بٹن دبانے کیلئے آن سکرین کی بورڈ استعمال کرتا تھا۔
اردو سیارہ پر آنے والے تحاریر کے پڑھنے پر ہی اکتفاء کرتا تھا۔سُستی کا یہ حال تھا کہ اردو سیارہ کے بلاگز پر کمنٹنے کو خواہش پیدا ہو جاتی لیکن نام اور برقی پتہ کا سلسلہ دیکھ کر ہی خواہش ختم ہوجاتی۔
پھر دل کے اندر کے بلاگر نے انگڑائی لی کہ چلو کچھ تو ہمت کرو ۔کب تک صرف پڑھتے رہو گے۔یہ سستی کہیں اکبر بادشاہ والے لَٹوں(سُست درباریوں) میں نام شامل نہ کرائے۔
اب جناب اکبر بادشاہ والی کہانی کا حوالہ دیا تو قصہ بھی بتانا پڑئے گا۔
تو بات یوں تھی کہ اکبر بادشاہ کے کچھ درباری انتہائی سست اور کاہل تھے ۔ایک بیری کے درخت کے نیچے پڑئے رہتے تھے۔
ایک بار درخت سے ایک بیر گرا اور ایک کاہل درباری کے قریب ہی گر پڑا۔اس نے قریب لیٹے ہوئےدوسرئے سست اور کاہل درباری سے درخواست کی کہ جناب یہ بیر تو میرے منہ میں ڈال دو، تو اس نے غصے سے منہ موڑ کر کہا کہ کیوں جناب کل جو کتا میرئے منہ پر پیشاب کر رہا تھا ،تو تو نے اسکو بھگایا تک نہیں اور آج بیر کو منہ میں ڈالنے کی درخواست کر رہے ہو۔
پھر ذہن میں آیا کہ جناب اب کیا لکھیں ۔دل نے کہا کہ کسی بھی بات کا بتنگڑ بنا کر بلاگ کا پیٹ بھر لو، لیکن مزہ نہیں آیا۔
پھر خیال آیا کہ خبروں پر تبصرہ لکھو لیکن پھر یاد آیا کہ کس کس خبر کی بات کروگے۔سارے ٹینشنی خبریں ہیں۔لھذا اس خیال کو بھی ترک کردیا۔
اتنے میں بجلی کا آنا جانا ہوا تو اس پر لکھنے کا ارادہ کیا لیکن وہی دھات کے ۔۔۔۔۔پات ۔
لوگ تین لکھتے ہیں لیکن کسی کا دل چاہئے تو ضرورت کے مطابق زیادہ یا کم خودلکھ لے۔
چلو کچھ تو کام ہوگیا بلاگ کے واسطے۔ کی بورڈ کے ٹک ٹک سے ننھی بیٹی بھی جاگ گئی۔ننی کے ماں کے غصے کا کون سامنا کرئے لھذا یہ نئی مصروفیت گلے پڑ گئی۔لھذا اب اجازت چاہتا ہوں ۔
باقی باتیں اگلی ملاقات پر۔ان شاء اللہ تعالیٰ
خدا حافظ
چلیں آپ واپس تشریف تو لائے۔۔۔ ورنہ خاموشی کا عرصہ طویل ہوا جا رہا تھا۔۔۔
جواب دیںحذف کریںہم اس پر کچھ نہیں لکھیں گے :)
جواب دیںحذف کریںمرزا صاحب بلاگ پر خوش آمدید (c)
حذف کریںیہ تو ہی کیا جیسے ایک بندہ نمازکے دوران بولا کہ
شکرہے میں تو نہیں بولا ورنہ نماز خراب ہوجاتی۔
آپکی تشریف آوری کا بہت شکریہ :)