میری پچھلی تحریر میں بنوں کی جانب سفر کا ذکر کیا گیا تھا۔بنوں جنوبی اضلاع میں سے ایک ایسا ضلع ہے کہ جہاں سے کرک،سراے نورنگ، لکی مروت ،اور شمالی وزیرستان کے عوام نہ صرف مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان علاقوں کی اکثر ضروریات زندگی یہیں سے پوری ہوتی ہیں۔
میڈیکل کالج، یونیورسٹی ، میڈیکل کمپلیکس ،اور مختلف تفریحی پارکس بنوں شہر کی نمایاں خاصیات ہیں۔اگرچہ سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا تعلق بھی بنوں سے تھا،لیکن اسکے دور میں بنوں میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی کام نہیں ہوسکا۔
ایم ایم ائے کے دور میں جب بنوں سے صوبائی نشست جیتنے والے اکرم خان دُرانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ بنے۔تو انکے دور حکومت میں بنوں میں نمایاں ترقیاتی کام ہوئے۔ جس کے سبب جنوبی اضلاع اور متصل قبائلی علاقہ جات کیلئے بنوں ایک ماڈل سٹی کے مثل بن گیا۔
بنوں کے عصر کا وقت کافی تفریح بخش ہوتا ہے۔ بنوں کے عصر کے وقت کو امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ (دَ بنوں مازدیگر) کے عنوان سے کئی ٹی وی چینلز نے پروگرام کئے ہیں۔
خاص کر چھٹی کے دن عصر کے وقت جب شادی کے دولہے بنوں بازار آجاتے ہیں تو ایک شغل و رونق کا ماحول بن جاتا ہے۔دولہا لفظ ویسے بھی رونقیں بکھیرنے والا ہے،اور جب اس قسم کی آوٹ ڈور تفریح بھی ساتھ ہو تو رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔
خاص کر چھٹی کے دن عصر کے وقت جب شادی کے دولہے بنوں بازار آجاتے ہیں تو ایک شغل و رونق کا ماحول بن جاتا ہے۔دولہا لفظ ویسے بھی رونقیں بکھیرنے والا ہے،اور جب اس قسم کی آوٹ ڈور تفریح بھی ساتھ ہو تو رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔
عید کے دنوں میں بھی اطراف کے اضلاع و قبائلی علاقہ جات کے لوگ بنوں چلے جاتے ہیں ،اور مختلف پارکوں میں تفریحی سرگرمیوں میں مشغول ہو کر شام ڈھلے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی کئی بار بنوں گیا ہوں،اور یہ رنگینیاں میری نظروں سے بھی گذری ہیں۔لیکن اس بار بنوں پہنچنے پر دیکھا کہ لوگوں کے چہروں پر شوخی اور رنگینیوں کے بجائے آفسردگی نے ڈھیرے ڈال رکھے تھے۔
بنوں شہر میں داخل ہوتے ہی ہر طرف گاڑیوں کا رش ،اور گاڑیاں بھی ایسی کہ جن میں نقل مکانی کرنے والے متاثرین شمالی وزیرستان بمع گھریلو ساز و سامان سوار ہوتے تھے۔
سڑکوں پر نان کسٹم پید گاڑیاں بھی گھومتی نظر آئیں۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ حکومت نے نقل مکانی کرنے میں سہولت کے سبب نان کسٹم پید گاڑیوں میں بھی سفر کی اجازت دے رکھی ہے۔
چلو شکر ہے کہ ہر قسم کے ٹرانسپورٹ کے استعمال کی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے۔
چونکہ ہماری کچھ ملاقاتیں پہلے سے طے تھیں،ان میں سے ایک ملاقات ایک نجی فلاحی ادارے کے سربراہان سے بھی تھی۔ ملاقات میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔جس میں فلاحی ادارے کے سربراہ نے بتایا کہ ایک نجی ہسپتال والوں سے بات کی گئی ہے ۔ یہ اگرچہ ایک زنانہ ہسپتال تھا،لیکن فی الوقت ایمرجنسی بنیادوں پر ہر قسم کے مریضوں کو طبی امداد فراہم کرنے کیلئے یہاں بندوبست کیا گیا تھا۔
متاثرین شمالی وزیرستان چونکہ تھکے ہارے بنوں پہنچ رہے تھے،اسلئے انکے لئے ایک ریفریش منٹ پوائینٹ کا مشورہ ،ابتدائی طبی امداد کے سٹال ، معصوم بچوں، خواتین اور بیمار متاثرین کیلئے ایمبولینس وغیرہ کے بنیادی انتطامات پر تفصیلی گفتگو ہوئی،اور اس پر فوری عمل کیا گیا۔
نجی زنانہ ہسپتال کا اندرونی منظر |
ہمیں مختلف مقامات دکھائے گئے جہاں سٹال لگانے کی تیاری کرنی تھی۔ نجی فلاحی ادارے کے ڈونرز نے ان لوگوں سے کافی تفصیلات مانگی تھیں،جن کو ہمارے ساتھ شیئر کیا گیا۔ادارے کی اس مشکل کو یوں حل کیا گیا کہ ایک مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا ،اور اس میں بنیادی ضروریات و دیگر اہم باتیں تفصیل سے بیان ہوئیں۔ اس طرح ڈونرز کو تفصیل سے متاثرین کی مدد کی راہنمائی مل گئی۔
اجلاس کے بعد شمالی وزیرستان سے آنے والی سڑک پر جانے کا پروگرام بنا ، چنانچہ کل کے ریلیف کیمپ کیلئے ایک دو جگہیں دیکھی۔ اس دوران بھی وقتا فوقتا لوگ نقل مکانی کر رہے تھے۔
اس تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک خاندان فلائینگ کوچ میں سفر کرکے بنوں پہنچ گیا ہے۔ یہ لوگ 12 -13 گھنٹے سیدگی آرمی چیک پوسٹ پر انتطار کرکے پہنچتے ہیں۔
بعض لوگ ایسے بھی کہ انتہائی معمولی گھریلو سامان ساتھ گھر سے نکلے ہیں۔
مغرب کا وقت قریب تھا اور اس سڑک پر آرمی کسی بھی وقت کرفیو لگا سکتی تھی،جس کے سبب یہاں ہم سب کے پھنسنے کا خدشہ تھا،میزبان بھی کافی بے چین تھے۔اسلئے ہم نے آج کے دورے کو مختصر کرتے ہوئے واپس ہوٹل جانا مناسب سمجھا۔
یوں تو ہم نے پہلے بھی لوگوں سے یہ باتین سُنی تھی کہ سخت گرمی،بھوک پیاس میں پیدل نقل مکانی کے دوران کئی متاثرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
لیکن تازہ ترین خبر ہمارے لئے یہ تھی کہ صبح جب ہم ناشتہ کر رہے تھے کہ اس دوران جوتے پالش کرنے والا بھی ہمارے قریب آبیٹھا۔ گفتگو کے دوران اس نے بتایا کہ ابھی بنوں کے علاقے سوکاڑی میں ایک عورت نقل مکانی کرکے پہنچی ،لیکن رات بھر پیدل سفر ،بھوک پیاس کا تاب نہ لا کر فوت ہوگئی۔
میں نے مزید تفصیلات پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بنوں میں ہی اس عورت کے رشتہ دار موجود ہیں ، وہ موقع پر پہنچ گئے اور اس عورت کے کفن دفن کا انتظام کرلیا۔
صبح ہم نے بنوں سے متصل ایف آر بکاخیل میں آرمی کی طرف سے بناے ہوے کیمپ جانے کا منصوبہ بنایا۔بنوں کے حدود میں واقع باران پُل کے قریب تبلیغی مرکز کے پاس ہم کچھ دیر کیلئے رُک گئے۔ متاثرین وزیرستان کے کئی خاندان نقل مکانی کرتے ہوئے آپ دیکھ سکتے ہیں۔
باران پُل |
باران پُل ایک برساتی نالے پر بنا انگریزوں کے زمانے کا پُل ہے،لیکن اسکی چوڑائی کم ہے اسلئے یک طرفہ ٹریفک ہی اس پر چل سکتی ہے۔چنانچہ لوگ قریبی برساتی نالے میں راستہ بنا کر بنوں کی طرف جا رہے ہیں۔
سواری کی عدم دستیابی کے سبب 40 میل تک پیدل لائی جانے والی گائے،جو خود بمع مالکان تھکن سے چور ہے۔ |
ذیل کی تصویر میں پیدل لائی جانے والی بکری تھکن ،پیاس اور گرمی کے سبب مرچکی ہے۔ ایسے بے شمار جانور آپ کو سڑک کنارے نظر آئیں گے،جو شمالی وزیرستان سے پیدل سفر کا تاب نہ لا کر مرچکے ہیں۔
نقل مکانی کی چند دیگر تصاویر
نقل مکانی کے دوران مستعمل نان کسٹم پیڈ گاڑیاں۔پس منظر میں باران پُل پولیس چوکی اور بنوں تبلیغی مرکز |
متاثرین وزیرستان کے نقل مکانی کا ایک ویڈیو منظر
کہنے والے کہتے ہیں کہ کبھی اس علاقے میں افغان مہاجرین کیلئے کیمپ بنائے گئے تھے،لیکن افسوس کہ آج اپنے ہی ملک کے محب وطن اور وفادار باشندے در بدر پھر رہے ہیں۔افغان مہاجرین کیلئے بنائی گئی تعمیر
ایف آر بکاخیل کے مقام پر ایک لق دق پتھریلی زمین پر متاثرین کیلئے حکومت کی طرف سے کیمپ بنایا گیا ہے۔جہاں صرف کیکر ہی کیکر آپ کو نظر آئیں گے۔ کیمپ کے تمام تر معاملات کی نگرانی فوج کرتی ہے۔ ہم کیمپ کے طرف گئے ،تو راستے میں آرمی والوں نے روک دیا۔ہم نے انکو بتایا کہ کیمپ کی وزٹ کرنا چاہتے ہیں،تاکہ پھر متاثرین کو یہاں لایا جا سکے۔
لیکن ہمیں یہ کہہ کر کیمپ میں نہیں جانے دیا گیا کہ یہ آرمی کا کیمپ ہے اور بدون آرمی کی مرضی کوئی ادھر نہیں جائے گا۔بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر متاثرہ خاندان بھی آئے تو نادرا ویریفیکیشن کے بعد ہی اسکو یہاں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
فوجی سپاہی بہت گرم جوشی دکھا رہا تھا اور بھڑکیں مار رہا تھا کہ اب علاقہ صاف ہوجائے گا اور پورے پاکستان میں امن قائم ہوگا۔
اس بیچارے کو یہ علم نہیں تھا کہ حکومتی حمایت یافتہ حقانی گروپ اور اس جیسے دیگر عسکری گروہوں کو حکومت پہلے ہی کرم ایجنسی کی طرف بمع ساز وسامان راہ دری فراہم کر چکی ہے۔بلکہ آرمی آفسران تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ آپریشن حقانی نیٹ ورک کے خلاف بالکل نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ چند دوسرے عسکری گروہوں کو بھی محفوظ مقامات کی طرف جانے کا راستہ فراہم کیا گیا ہے۔
بہرحال فوجی کو اسی طرح بھڑکیں مارتا چھوڑ کر ہم واپس بنوں کی طرف روانہ ہوئے،تاکہ متاثرین کے عارضی ریلیف کیلئے اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
لیکن ہمیں یہ کہہ کر کیمپ میں نہیں جانے دیا گیا کہ یہ آرمی کا کیمپ ہے اور بدون آرمی کی مرضی کوئی ادھر نہیں جائے گا۔بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر متاثرہ خاندان بھی آئے تو نادرا ویریفیکیشن کے بعد ہی اسکو یہاں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
فوجی سپاہی بہت گرم جوشی دکھا رہا تھا اور بھڑکیں مار رہا تھا کہ اب علاقہ صاف ہوجائے گا اور پورے پاکستان میں امن قائم ہوگا۔
اس بیچارے کو یہ علم نہیں تھا کہ حکومتی حمایت یافتہ حقانی گروپ اور اس جیسے دیگر عسکری گروہوں کو حکومت پہلے ہی کرم ایجنسی کی طرف بمع ساز وسامان راہ دری فراہم کر چکی ہے۔بلکہ آرمی آفسران تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ آپریشن حقانی نیٹ ورک کے خلاف بالکل نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ چند دوسرے عسکری گروہوں کو بھی محفوظ مقامات کی طرف جانے کا راستہ فراہم کیا گیا ہے۔
بہرحال فوجی کو اسی طرح بھڑکیں مارتا چھوڑ کر ہم واپس بنوں کی طرف روانہ ہوئے،تاکہ متاثرین کے عارضی ریلیف کیلئے اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
متاثرین کیمپ کا دور سے ایک منظر |
حالیہ رپورٹوں کے مطابق لاکھوں متاثرین نے حکومت و آرمی کے مشترکہ کیمپ میں ذلت کی زندگی گذارنے سے انکار کردیا۔ اور کھلے آسمان تلے زندگی گذارنا قبول کرلی.
اس ویڈیو میں بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ متاثرین نے اپنے عورتوں کے پردے کیلئے کھلے آسمان تلے چارپائیوں کی ایک آڑ بنائی ہے۔اور بے سر وسامانی کی حالت میں یہاں پڑاؤ ڈالا ہے۔
اندازہ کے مطابق8-9 خاندان صرف منت وزاری کرکے کیمپ لائے گئے ہیں،تاکہ شرمندگی سے بچا جا سکے۔لیکن وہ بھی یہاں پر کافی مشکلات کا شکار ہیں۔اور سوشل میڈیا پر کبھی کبھار انکی فریادیں سنائی دیتی ہیں۔
اس تمام سفر میں اگرچہ میرے دوسرے ساتھی کافی غمگین تھے،لیکن اس وقت دکھ کی ایک لہر میرے دل میں اتری جب میں نے بھینس کا بچھڑا بھوک پیاس اور تھکن سے تپتی سڑک پر گرتا دیکھا۔ میں جب قریب پہنچا تو اسکی سانسیں تیز چل رہی تھی۔اور ہانکنے والا چھوٹا بچہ اسکے قریب پریشان حال کھڑا تھا۔
یہاں پر میرے بھی ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے،شکر ہے دھوپ کے چشمہ نے میری آنسوں کو چھپا لیا۔
یہ لیجئے ایک ویڈیو ،گرمی ،بھوک پیاس اور تھکن سے چور متاثرین اپنے جانور بنوں کی طرف ہانکتے ہوئے
ایسے بھی لوگ دیکھے جو صرف تن کے کپڑوں میں گھروں سے نکلے تھے۔خاص کر تحصیل شواہ اور سپین وام کے لوگ۔انہوں نے بتایا کہ آرمی کرنل نے ہمیں نقل مکانی سے منع کیا۔لیکن ہمارے علاقے کے عمائدین نے فوج کو صاف جواب دیا کہ جس طرح باقی تحصیلوں کے ساتھ آپ لوگوں نے وعدہ خلافی کرکے ان پر کرفیو کے دوران آپریشن مسلط کردیا ہے،یہی عمل ہمارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
تحصیل شواہ کے متاثرین نے مزید بتایا جب ان باتوں کے بعد ہم گھروں سے نقل مکانی کرنے لگے تو آرمی نے کہا کہ جاؤ لیکن صرف تن کے کپڑوں میں۔اسکے علاوہ کسی چیز کو لے جانے کی اجازت نہیں۔
چنانچہ تحصیل شواہ کے عوام بے سروسامانی کی حالت میں نقل مکانی کرکے بنوں اور ہنگو کی طرف نکل گئے۔
غفار خان جو کہ تحصیل شواہ کا رہائشی ہے۔اس سے میں نے پوچھا کہ کیوں آرمی نے آپ لوگوں کو جانے سے منع کیا تھا ۔تو انہوں نے بتایا کہ شائد وہ طالبان کے خلاف ہمیں انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔
کیونکہ جب ہم گاؤں سے نکلیں گے تو یہ خدشہ موجود ہے کہ طالبان ان پر پیچ پہاڑی عمارات پر قبضہ کرکے فوج پر گوریلا حملے کرنے لگیں۔
بنوں میں ایک نوجوان لڑکے عیسی سے بھی ملاقات ہوئی۔ عیسی نے اپنا تعلق میرعلی سے بتایا۔میں نے عیسی سے پوچھا کہ آپ لوگ کیسے نکلیں ہیں۔
تو انہوں نے بتایا کہ ہماری فیملی تو طالبان کے 10 جون کے ڈیڈ لائن سے قبل ہی نکلی تھی۔لیکن ہمارا سارا سامان میرعلی میں رہ گیا تھا۔اسلئے جب میں دوبارہ فلائنگ کوچ کرائے پر لے کر سامان لانے چلا گیا تو جب ہم سامان گاڑی میں لاد رہے تھے تو ہمارے اوپر ہوا میں کوبرا ہیلی کاپٹر قریبی گھروں پر شیلینگ کر رہا تھا۔چنانچہ باقی سامان تو جلدی سے گاڑی میں ڈال آئے ،لیکن ہماری گھابن گائے بمع بچھڑے کی ادھر ہی رہ گئی۔
میں نے اسکو کہا کہ خدا کے بندے وہ تو گھر میں بھوک پیاس سے مرجائے گی،تو عیسی نے بتایا کہ گھر سے باہر رسی کھول کر چھوڑ آیا ہوں،پتہ نہیں وہ ہمیں دوبارہ ملے گی کہ نہیں۔
راستے میں ایک مقام پر چند احباب نے ریلیف کیمپ لگایا تھا،جس میں چنا چاول اور ٹھنڈا پانی متاثرین کو پیش کیا جا رہا تھا یہ لوگ ہم سے سبقت کر گئے تھے۔ان لوگوں نے ہم سے دو دن پہلے یہاں پہنچ کر انتظامات کئے تھے۔
کیمپ میں مردوں کیلئے الگ حصہ بنایا گیا تھا،جہاں پر کرسیاں اور دریاں بچھائی گئی تھی۔اور خواتین کیلئے الگ پردہ دار جگہ بنائی گئی تھی۔جہاں انکے واسطے خوراک اور وقتی آرام کا بندوبست کیا گیا تھا۔
کیمپ چلانے والوں نے بڑے مشکل مرحلے دیکھے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک دن رات میں ہم 15 ہزار کی برف استعمال کر چکے ہیں۔ اس سے متاثرین کی تعداد اور گرمی کی شدت کا اندازہ خود لگایا جا سکتا ہے۔
کیمپ کے انچارج نے ہمیں بتایا کہ گذشتہ رات 4-5 بچے میری گود میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ بے شمار پردہ دار عورتوں نے بے آسرا قریبی کھیتوں میں کھلے آسمان تلے رات گذاری۔
دنیا نیوز کے صحافی کے ریکارڈ کے مطابق 21 معصوم بچے اس نقل مکانی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ وہ ریکارڈ ہے جو صرف انکو معلوم تھا،جو آف دی ریکارڈ ہیں یا جن کو رپورٹ نہیں کیا گیا ،وہ کتنے ہونگے؟
بے شمار خواتین طبی وجوہات کی بناء پر فوت ہوگئی۔بے ہوش ہونے والوں کا تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔
نقل مکانی کرنے والوں میں ایک حسین احمد بھی شامل ہیں ۔جس کی 24 سال عمر ہے اور شمالی وزیرستان کے تحصیل میرعلی سے انکا تعلق ہے۔ ایک انتہائی قابل کالج سٹوڈنٹ ہیں۔انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں نقل مکانی کر رہا تھا ،تو اس دوران ایک لڑکے کو دیکھا جو کہیں چارپائی ڈھونڈ رہا تھا۔
حسین کہتا ہے کہ میں نے اس لڑکے سے پوچھا کہ کیوں چارپائی کی تلاش میں ہو؟
اس لڑکے نے جواب دیا کہ میری ماں میرے ساتھ پیدل نقل مکانی کر رہی تھی ،لیکن ابھی ہم چند کلو میٹر ہی گئے تھے کہ چند لڑکے ہمارے قریب سے حالیہ آپریشن سے متعلق باتیں کرتے ہوئے گذرے۔
تجسس کے مارے ماں نے بیٹے سے پوچھا کہ یہ لڑکے کیا کہہ رہے ہیں؟
تو لڑکے نے جواب دیا کہ ماں یہ کہہ رہے ہیں کہ آرمی نے پوری کی پوری بستیوں کو ملیا میٹ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔
ماں نے بیٹے کو کہا کہ بیٹا !
اس غربت میں بڑی مشکل سے یہ گھر بنایا ہے،میرے پاس تو کچھ نہیں بچے گا ،اور اسی کے ساتھ عورت کو ہارٹ آٹیک ہوا۔
اب لڑکا سرگرداں پھر رہا ہے کہ کہیں چارپائی ڈھونڈ لے۔
اسی طرح سید سیف جو میرعلی بازار کا دوکاندار ہے۔ بار بار اُف اُف کرتا جاتا تھا،اسکے بیٹے نے بتایا کہ ابھی ہم نیا گھر بنا رہے ہیں ،اور 40 لاکھ تک اس پر لگا چکے ہیں۔اگر حکومت نے اسکو مسمار کردیا تو ہم تو بالکل کنگال ہوجائیں گے۔
سید سیف کے بیٹے نے بتایا کہ میرے ابو بستر پر خاموش لیٹے رہتے ہیں اور بولتے تک نہیں۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے،کہ جس میں راستے کی تکلیف یا دیگر اسباب کی وجہ سے لوگوں کو طبی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟
آپ دیکھ سکتے ہیں بنوں میرعلی یا بنوں میرانشاء کا فاصلہ اتنا بھی زیادہ نہیں،تو کیا وجہ ہے کہ اس نقل مکانی کے دوران اتنی اموات ہوئی؟
عموما یہ راستہ گاڑی میں 45 منٹ میں طے ہوتا ہے۔لیکن نقل مکانی کے دوران لوگ 50،40 گھنٹوں میں بنوں پہنچے ہیں۔
سید سیف کے بڑے بیٹے نے بتایا کہ ہم دن گیارہ بجے ٹریکٹر میں سوار ہو کر بنوں کی طرف روانہ ہوئے۔لیکن اگلے دن صبح صادق کے وقت ہی ہم بنوں پہنچ سکے۔ہماری عورتوں کے پاؤں سُن ہوچکے تھے۔چنانچہ ٹریکٹر سے اترنے کے بعد بھی انکو چلنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔
وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ میرعلی سے نکلنے کے بعد سیدگی جو کہ ایک خشک و پتھریلا علاقہ ہے۔یہاں آرمی نے چیک پوسٹ بنایا ہے۔اول تو چیک پوسٹ ایسی جگہ پر ہے کہ نیچے گہری کھائی ہے،اور اسکے بعد ایک دم طویل چڑھائی۔
اس چڑھائی کے بالکل شروع میں آرمی نے چیک پوسٹ بنایا ہے۔اسلئے گاڑی کو اسی چڑھائی پر ہی کھڑا ہونا پڑتا ہے،جو کہ لوڈ گاڑی کیلئے کتنا مشکل ہے،اسکا اندازہ ڈرائیور حضرات ہی کرسکتے ہیں۔
سیدسیف کے بیٹے نے مزید بتایا کہ یہاں چیکنگ کا عمل اتنا سست تھا کہ کوئی اسکا تصور نہیں کرسکتا۔
اوپر سے جلانے والی سورج کی گرمی،
نیچھے پتھریلی زمین جہاں انسان تو کیا جانور بھی پانی کیلئے ترس جائے
اس پر 10 -12 گھنٹوں کا انتظار
میرعلی کالج کے سٹوڈنٹ حسین نے بتایا کہ سیدگی چیک پوسٹ پر میں سپاہی کے ساتھ باتیں کر رہا تھا،تو اس دوران سفید جیپ آئی،جس میں سے کوئی اترا،اور چیک پوسٹ پر کھڑے سپاہیوں کو خوب ڈانٹا۔
اسکے جانے کے بعد حسین نے سپاہی سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا تھا؟
تو سپاہی نے جواب دیا کہ یہ ہمارے آفسر ہیں،اور اس بات پرغصہ ہیں کہ کیوں نقل مکانی کرنے والے متاثرین کے ساتھ (اتنی) نرمی برتی جا رہی ہے۔مزید سختی کرو۔
گویا سپاہی اپنے بس کے مطابق نرمی کرتے تھے ،لیکن آفسران بالا سے مجبور تھے۔
چند مقامی ڈرائیوروں نے بتایا کہ سیدگی چیک پوسٹ پر ایک عورت کے گود میں بچہ تھا،جس کی جان گرمی ، اور پیاس کی وجہ سے خطرے میں تھی۔
چنانچہ وہ عورت سپاہی کے پاس گئی کہ خدارا کسی ایمبولینس کو اطلاع دیجئے،یا ہماری گاڑی چیکنگ کا نمبر پہلے لائے تاکہ ہم بنوں ہسپتال بروقت پہنچ سکیں۔
لیکن فوجی سپاہی نے یہ کہہ کر معذرت کردی کہ ہمیں اوپر سے آرڈر نہیں ہے۔
عورت منتیں کرتی رہی اور سپاہی انکار کرتا رہا۔
چند منٹ اسی طرح گزرے اور بچہ اس عورت کی گود میں موت کے منہ میں چلا گیا۔
عورت کا کلیجہ تو غم سے پھٹ گیا،چنانچہ مردہ بچے کو لے کر فوجی کے سامنے رکھ دیا کہ
تم جانو اور یہ لاش جانے ۔
اپنے لئے اسکو پکاؤ ،یا سُکھاؤ،
شیشے کے فریم میں بند کرو
اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں اسکو دیوار کے ساتھ ٹھونک دو،
تاکہ اس پر نظر پڑ کر تمھیں آرڈر کی پاسداری یاد آتی رہے۔
فوجی سپاہی بھی آخر انسان تھا ،یہ منظر برداشت نہ کرسکا۔عورت سے کہا کہ باقی تو میرا بس نہیں چلتا لیکن اب میں بھی مزید زندہ نہیں رہنا چاہتا،
چنانچہ سیدگی چیک پوسٹ پر ہی اپنے آپ کو شوٹ کردیا۔گولیاں ایک دوسرے سپاہی کو لگیں،لیکن وہ صرف زخمی ہوا۔
ظلم کا نتیجہ یہی ہوا کرتا ہے کہ انسان کی زندگی تاریک ہوجاتی ہے۔
چنانچہ تاریک قوموں کی افواج میں خودکشی کی شرح کافی زیادہ ہوتی ہے۔
اور یہی حالت شائد ہماری بھی ہونے والی ہے۔
جس روش پر ہمارے عسکری اداروں کے آفسران جا رہے ہیں وہ بہت ہی قابل افسوس ہے۔
دوسری بات جو کہ کئی جگہ پر نوٹ کی گئی ہے کہ نیچے رینک کے فوجیوں کو ایک افسانیوی ماحول میں رکھا جاتا ہے۔انکی سوچ،انکی باتیں سُن کر ایسے لگتا ہے جیسے کسی ناول کے کردار۔لیکن جب یہی لوگ دنیا کی حقیقی زندگی کی طرف نکل آتے ہیں ،تو اس وقت دنیا کی تلخیاں انکے افسانوی سوچ کو یکسر تبدیل کردیتی ہیں،جس سے وہ گھبرا جاتے ہیں،اور ایسی صورت حال میں صحیح فیصلہ کی قوت جھنجلاہٹ کا شکار یوجاتی ہے۔
یہ سپاہی اگر نرمی کرنا بھی چاہتے تو آفسران بالا انکو سختی سے روکتے۔بلکہ یہاں تک کہ الخدمت ایمبولینس سروس کے سربراہ نے مجھے خود بتایا کہ میں سیدگی چیک پوسٹ پر گیا،اور وہاں کے میجر سے میں نے درخواست کی کہ یہاں اگر الخدمت ایمبولینسوں کو کھڑا کرنے کی اجازت دی جائے ،تاکہ طبی امداد کے مستحق متاثرین کو فوری ہسپتال پہنچایا جا سکے۔
لیکن میجر نے سختی سے اس درخواست کو رد کردیا۔
بعد میں رات بارہ بجے سیدگی چیک پوسٹ سے کیپٹن کا فون آیا کہ کل اپنی ایمبولینسیں لے کر ضرور چیک پوسٹ پر آجانا۔
ایمبولینسوں کے نگران نے مجھے بتایا کہ میں نے کپیٹن کو جواب دیا کہ آپکے میجر نے تو مجھے اجازت نہین دی،آپ تو اسکے ماتحت ہیں۔
تو کیپٹن نے فون کے سامنے ہی وائرلیس پر حکم چلا دیا کہ کل سے کوئی الخدمت کے ایمبولینسوں کو نہیں روکے گا۔
چنانچہ ایک آدھ دن تک تو الخدمت والوں نے متاثرین کو امداد فراہم کردی،لیکن جب معاملہ دوبارہ بڑوں کے پاس گیا تو ایک بار پھر الخدمت والوں کو ایمبولینس سروس فراہمی سے روک دیا گیا۔
بنوں میرانشاء روڈ پر ایک ایسے خاندان سے بھی ملاقات ہوئی،جو کبھی پیدل اور کبھی گاڑی میں یہ راستہ طے کرکے بنوں پہنچے تھے۔راستہ میں کئی بار یہ خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گیا ،لیکن بڑی مشکل سے پھر ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیتے۔
اس خاندان کے ایک 23-24 سالہ لڑکے نے اپنا نام علی بتایا اور کہا کہ دوران نقل مکانی میری بڑی عمر کی بہن کو اس درجے پیاس لگی کہ وہ مزید چل نہیں سکتی تھی۔ چنانچہ سڑک کنارے بیٹھ کر پیاس کی تکلیف کی وجہ سے رونے لگی۔
علی نے بتایا کہ چند گھنٹے تو اسطرح گذر گئے لیکن بعد میں بڑی مشکل سے ایک گلاس پانی مل گیا،جس سے میری بہن کی طبیعت کچھ بحال ہوگئی۔
سب سے زیادہ نظم و ضبط کی دعویدار فوج نے جب بھی سول معاملات کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ،تو شدید بد نظمی کو رواج دیا۔
شمالی وزیرستان کی کل آبادی اندازا 11 لاکھ تک ہے،جس میں 7 لاکھ تک لوگ نقل مکانی کرچکے۔اور فوج کی طرف سے 7 لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کیلئے صرف تین دن دئے گئے،اور اسمیں مختلف چیک پوسٹوں پر کئی گھنٹوں کیلئے کرفیو لگا دیا جاتا۔جس کے سبب لوگوں کو شدید مشکل درپیش آئی۔
ایک جگہ پر مختلف ٹی وی چینلز کی گاڑیاں کھڑی تھی،چنانچہ ہم بھی وہاں رُک گئے،اس دوران کسی نے بتایا کہ فلاں شخص مولوی گل رمضان ہے،جو کہ فوج اور طالبان کے درمیاں مذاکرات میں شریک تھے۔
ہم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ،ان سے مذاکرات بارے میں جاننے کی خواہش ظاہر کی۔جو انہوں نے قبول کی چنانچہ ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔گپ شپ کے دوران انہوں نے بتایا کہ جب حافظ گل بہادر(امیر طالبان شمالی وزیرستان) نے عوام کو دس جون تک نقل مکانی کرنے کی ہدایت کی ،تو ہم اور شیر محمد صاحب نے ایک جرگہ تشکیل دئے کر گورنر خیبر پختونخواہ اور کور کمانڈر سے ملاقات کی۔انہوں نے ہمیں 20 جون تک کا اپریشن نہ کرنے کا اطمینان دلایا۔
مولوی گل رمضان نے بتایا کہ ابھی ہم مختلف طالبان گروہوں سے ملاقاتوں میں مصروف تھے کہ آرمی نے اچانک آپریشن کا اعلان کردیا۔آرمی نے ہمارے ساتھ اور شمالی وزیرستان کے عوام کے ساتھ بڑا دھوکہ کیا ہے۔کیونکہ 20 جون سے قبل ہی آرمی نے آپریشن کا اعلان کردیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک طرف وعدے کی خلاف وزری اور دوسری طرف آرمی نے کرفیو کا اعلان کردیا،جس کے سبب عوام گھروں میں محصور ہو کر رہ گئےتھے۔چنانچہ ایک طرف بمباریاں اور توپ کی شیلینگ شروع کردی گئی اور دوسری طرف عوام کو گھروں میں محصور کردیا گیا۔
بعد میں بی بی سی اور وائیس آف آمریکہ والے بھی پہنچ گئے ،چنانچہ انکو بھی مولانا صاحب نے یہی باتیں بتائی۔
بنوں میرانشاء روڈ پر جگہ جگہ لوگ متاثرین کو ممکن ریلیف فراہم کر رہے تھے۔کئی لوگوں نے سڑک کنارے ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگا رکھی تھی۔کچھ جانوروں کیلئے پانی کے بڑے بڑے ٹب بھر رہے تھے،کچھ لوگوں نے ہاتھوں میں جانوروں کیلئے چارہ پکڑا ہوا تھا۔
چاول، حلوئے کی پیکٹیں،چھوٹے بچوں کیلئے کھلونے اور ٹافیاں وغیرہ،غرض بنوں کے عوام سے جو ہوسکا،انہوں نے متاثرین شمالی وزیرستان کی امداد کی۔ واقعی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنوں کے عوام نے متاثرین شمالی وزیرستان کی حد درجے مہمان نوازی کی۔
وقت کم اور کام زیادہ تھا اسلئے ہم اپنے ریلیف کیمپ کو عملی جامہ پہنانے میں جُت گئے۔جلد ہی سب کچھ تیار ہوگیا۔ کیمپ کے تین حصے بنائے گئے۔ ایک حصہ مردوں کے خوراک و آرام کیلئے۔دوسرا حصہ خواتین کیلئے ،اور تیسرا حصہ ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کا۔
خوراک کے سلسلے میں وہی چنا چاول اور ٹھنڈا پانی ہم نے مناسب سمجھا ،البتہ ابتدائی طبی امداد پر زور دیا ،کہ بہت کم لوگ یہ سہولت فراہم کر رہے تھے۔
اسی کے ساتھ کپمپ میں جانوروں کے پانی کیلئے بھی ایک عارضی ٹب کا بندوبست کیا گیا۔
میں کیمپ میں کھڑا تھا کہ ایک باباجی آگئے کہ میری بیٹی بیمار ہے،اسکا علاج کرو۔چنانچہ طب سے متعلقہ شخص نے بچی کو چیک کیا۔بچی کو معمولی بخار بھی تھا لیکن اسکے کان اندر سے معمولی زخمی تھے۔
بچی کے ساتھ بوڑھی دادی بھی تھی،جب ایک بندے نے اس سے پوچھا کہ تمارا گھر کدھر ہے،تو وہ بوڑھی عورت رو پڑی اور پیچھے کھیتوں میں لگے درخت کی طرف اشارہ کیا کہ اس درخت کے نیچے ٹہرے ہیں۔
کیمپ رضا کار بچی کو اُٹھائے ہوئے،پیچھے بچی کا باپ کھڑا ہے۔ |
فورا ہی ایمبولینس کو بٰلایا۔اس دوران بچی کو آو آر ایس وغیرہ پلایا گیا ،تاکہ بچی کی طبیعت کچھ بہتر ہوسکے۔
ORS کے بعد بچی کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی،لیکن دادی پوتی کے آنکھوں میں اب تک آنسو تھے
کئی بچوں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب وہ موت کے منہ میں چلے گئے تھے،اسلئے جب ایمبولینس تھوڑی لیٹ ہوئی تو میں نے اپنی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ انکو ہسپتال روانہ کیا۔
کیمپ میں ہم کھڑے ہی تھے کہ سامنے سڑک پر چند بھیڑ بکریاں گذرنے لگی۔ سخت گرمی،تھکن اور پیاس کی وجہ سے ایک بھیڑ سڑک کنارے بیٹھ گئی ،اور مزید چلنے سے انکار کردیا۔
چنانچہ کچھ دیر سستانے کے بعد کیمپ میں موجود پانی کے ٹب کی طرف اسکو ہانکا گیا۔
ریلیف کیمپ میں جانوروں کو پانی پلایا جا رہا ہے۔
بکریاں اگر پانی پیئں گی تو میمنہ بھی کسی سے کم نہیں
مختلف لوگوں کی جانب سے یہ شکایت کی گئی کہ کوئی مناسب جگہ نہیں مل رہی تاکہ اس میں رہائش اختیار کی جاسکے۔چنانچہ بنوں کے مختلف علاقوں میں گھومتا رہا،جلد ہی ایک بچیوں کا سکول خالی مل گیا۔ہیڈ مسٹرس سے بات کی تو اس شرط پر مان گئی کہ پھولون کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ہم نے اسکو اطمینان دلایا اور آپس میں رشتہ داری رکھنے والے چار پانچ خاندانوں کو وہاں منتقل کروایا،تاکہ پردہ مین مشکلات پیش نہ آئیں۔
مختلف سرکاری اہلکاروں سے ملاقاتیں کی،کئی پارٹیز راہنماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوئی ۔کوشش یہ کی کہ حتی الوسع متاثرین کے مشکلات کو کم کیا جائے۔اور انکی آواز اعلیٰ حکام تک بھی پہنچائی جائے۔
بنوں درانی سٹیڈیم میں حکومت کی طرف سے راشن تقسیم ہوتی تھی۔لوگ صبح صادق کے وقت یہاں پہنچ جاتے تھے۔لیکن پھر بھی کئی بار دن گزار کر واپس چلے جاتےیہ لمبی لمبی لائنیں اور یہ عزت دار شہری۔
مسئلہ یہ تھا کہ ہم بنوں میں مسافر تھے،اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہوٹلوں میں تین تین ہزار پر ایک ایک رات گذاریں۔ہم چاہتے کہ اپنی راحت کے بجائے زیادہ سے زیادہ رقم و ریلیف متاثرین کو فراہم کریں،اسلئے اتنے مہنگے کمرے میں رات گذارنا خالص عیاشی لگی۔ چنانچہ جب کہ میں نے ایک دوست کو کال کی تو اس نے بتایا کہ رات گذارنے کیلئے صرف اوپر کی چھت فراہم کرسکتا ہوں۔ ہم نے یہ پیشکش قبول کرلی۔لھذا دن متاثرین کی مختلف خدمات میں گزارتے اور رات دوست کے گھر کی چھت پر دری بچھا کرسوجاتے۔
یقین جانئے بہت پرسکون نیند ہوتی،کہ ضمیر ایک حد تک مطمئن ہوتا۔
5-6 دن ہم نے بنوں میں گذارے۔اسکے بعد پشاور میں متاثرین ہی کے ریلیف کے سلسلے میں چند مزید ملاقاتیں متوقع تھی،اسلئے ہم نہ چاہتے ہوئے بھی پشاور کی طرف کوچ کرگئے۔
یہاں بھی کافی متاثرین آئے ہوئے ہیں،انکے مختلف مسائل کیلئے تاحال تگ ودو میں مصروف ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمارے گھر محفوظ کرنے کیلئے اپنا گھربار سب کچھ چھوڑا اور بے سر وسامانی کی حالت میں شمالی وزیرستان سے نکل آئے۔لاکھوں کے کاروبار ،سازوسامان سے بھرے گھر کو چھوڑ کر ایک نامعلوم منزل کی طرف نقل مکانی،اور وہ بھی اس حالت میں کہ انسان کو ماضی کی تجربات بتائے کہ حکومت ریلیف کے بجائے الٹا تکلیف دے گی۔ایسی نقل مکانی کا صرف سوچنا بھی کس قدر تکلیف دہ ہوتاہے۔
لیکن ان سب مشکلات کے باوجود بھی یہ لوگ گھربار چھوڑ کر نکلے۔وہ لوگ جو سو،دوسو مہمانوں کی میزبانی سے نہیں تھکتے تھے،آج پاکستان کو محفوظ کرنے کیلئے لائنوں میں کھڑے راشن وصولتے ہیں۔پولیس ان پر لاٹھی برساتی ہے،کہ لائن توڑتے ہو۔جبکہ حکومت اور اسکے ادارے انکے گھر توڑتے ہوئے ذرا برابر نہیں شرماتے۔
وہ لوگ جو پاکستان کے دفاع کیلئے 1948 میں کشمیر کو آزاد کرنے کیلئے گھروں سے نکل پڑے،جنہوں نے اپنا علاقہ قائداعظم پر اعتبار کرکے پاکستان کے ساتھ ملحق کیا۔جنہوں نے مغربی سرحدوں کو روس جیسی طاقت سے محفوظ کیا۔جنہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کیلئے اپنا خون بہایا۔
آج وہ بے سر وسامانی کی حالت میں درختوں کے نیچے پڑاؤ ڈالے نظر آئے۔بلکہ صرف یہ نہیں،الٹا ملک کے باقی تین صوبوں نے ان متاثرین کیلئے اپنے دروازے تک بند کردئیے۔
وہ آرمی جس نے کشمیر کو آزاد کرانے میں قائد اعظم کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔تو یہ قبائل قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کشمیر فتح کرنے نکل پڑے،آج بھی مغربی کشمیر اپنے ساتھ آزاد کشمیر لکھتی ہوئی فخر محسوس کرتی ہے۔
آرمی سے نفرت اس درجے تک پہنچ گئی کہ جب راشن دینے میں سستی کی گئی تو متاثرین نے جلوس نکلا۔سڑک بند ہوئی تو آرمی کو بُلایا گیا۔ لیکن لوگوں نے آرمی والوں کو بھی مارا۔صاف کہتے پھرتے ہیں کہ موت کے سلسلے میں ڈرون سے نہیں ڈرے تو آرمی گنیں کیا چیز ہیں۔چنانچہ ماضی میں ہار پہنائے جانے والے کئی فوجی سپاہیوں پر متاثرین کے جلوس نے حملے کئے۔
نفرت و مایوسی انتہاء تک پہنچئ ہوئی ہے۔
لیکن آفرین ہے ان لوگوں پر کہ اب بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔کبھی ملک کو ٹکڑے کرنے کی بات انکے منہ سے نہیں نکلتی۔ اب بھی پاکستان کے بغیر تنخواہ سپاہی بنے ہیں۔اور اس بے سر وسامانی کی حالت میں بھی ملک دشمنوں کو غضب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یار دل بوجھل ہوگیا ہے ابھی تبصرہ نہیں کرسکتا ........... :(
جواب دیںحذف کریںچلیں بعد میں کریں تبصرہ،قرض والے رجسٹر میں لکھ لیں
حذف کریںخود نظریں چرانے کیلئے کالے شیشوں والی عینک لگا لی اور ہمیں ایسے ہی یہ سب کچھ پڑهوا دیا؟
جواب دیںحذف کریںیا الله اپنے ان بے سروسامان مجبور بندوں کی مدد فرما. آمین.
آمین
حذف کریںان پشتونوں کا سب سے بڑا قصور یہی ہے کہ یہ پاکستان نام کے اس تضاد بھرے پراجیکٹ میں اسلام کے نام پر شریک ہوگئے- اسلام کے نام پر انکا خوب استعمال ہوا- مفت کی فوج جیسے مل گئی پاکستان کو- لیکن آج تک پاکستان فاٹا کی عوام کو سوائے تباہی بربادی کے اور جہاد انڈسٹری کے اپنے پراجیکٹ کے کچھ بھی نہی دے سکی-
جواب دیںحذف کریںنا انسانی حقوق، نہ تو کوئی عدالتیں نا ہائی کورٹ، نا ہی کوئی ایک یونیورسٹی آجتک-
جسطرح اسرائیل ایک غیر ریاست یعنی فلسطین پر اجتماعی سزا یا کولیکٹیو رسپونسبلٹی کے تحت بمباری یا اور حملے کرتی ہے- بلکل اسی طرح فاٹا کی عوام کو بھی اجتماعی زمہ داری کے تحت اجتماعی سزا دی جاتی ہے۔ بلکہ فاٹا کے عوام کیلئے اجتماعی سزا تو آئینِ پاکستان کے عین مطابق ہی ہے، آئینِ پاکستان کے تحت فاٹا کے عوام کے ساتھ یہ انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں-
عمران صاحب
حذف کریںبلاگ پر خوش آمدید
واقعی آپ کی بات درست ہے۔ (h)
الله آپ کو اتنی محنت کے بعد لکھی جانے والی پوسٹ اور دوران سفر ادپس کی مدد کرنے پر جزا خیر اتا فرمایے - اور اس ملک کو وو لیڈرشپ دے جو ان بے لوس سپاہیوں کی نہ صرف حوصلہ افزای کرے بلکے ان کے شہروں کو ڈویلپمنٹ اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے ایک مثالی جگہ بنا دے -
جواب دیںحذف کریںآصف شہزاد صاحب
حذف کریںبلاگ پر خوش آمدید
اور آپکی دعاؤں پر آمین
بہت اچھے رپورتاژ لکھنے لگ گئے ہیں آپ۔
جواب دیںحذف کریںآپ کو فقیر آف ایپی کی پاکستان کے ساتھ مرتے دم تک وفاداری پر بھی لکھنا چاھیئے۔ اس کے علاوہ اگر پشتونستان، افغانستان کی قبائلی علاقوں میں چھیڑ خانی کی تاریخ پر بھی ہماری معلومات پر اضافہ کریں کہ آپ مقامی ہونے کی بناء پر اچھا بیان کرسکتے ہیں۔
مجھے ایک سوال ہمیشہ ستاتا رہتا ہے کہ ان علاقوں کے "غیور" عوام نے اس علاقے کو جرائم پیشہ افراد کا گڑھ کیوں بنائے رکھا؟۔ واضع ہو کہ جرائم پیشہ سے مراد طالبان نہیں بلکہ وہ تمام افراد ہیں جو کہ پنجاب وغیرہ میں اغواء برائے تاوان، گاڑی چوری، وغیرہ کرکے "علاقہ غیر" کی نرم باہوں میں آ کر بیٹھ جاتے تھے۔
معذرت۔ ان موضوعات کے بارے کم علمی کے سبب میرے دل میں ہمیشہ اس علاقے اور اس جیسے دوسرے ماورائے قانون علاقوں کے لیے ہمیشہ دل میں تلخی رہی۔ امید ہے کہ آپ لکھ کر میری غلط فہمیاں دور کر دیں گے۔
جوانی بٹا صاحب
حذف کریںشکریہ
فقیر ایپی کے پاکستان کے بارے میں خیالات اور بعد میں پاکستان کی حمایت میں خاموشی ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کے لئے شائد تاریخ کا گہرا (سرسری نہیں) مطالعہ کرنا پڑے۔کئی لوگوں نے فقیر ایپی کے بارے میں تاریخ لکھی ہے ،لیکن اس میں شائد وہ انصاف نہ کر پائے۔
لھذا جب تک مکمل تاریخ مطالعہ نہ کی جائے ،اس وقت تک اس موضوع پر لکھنے سے معذرت۔
پشتونستا ن،افغانستان کی طرف سے مجھے چھیڑ خانی کا کوئی علم نہیں ہے۔ہاں( مشرق) کی طرف کی طرف سے وہاں چھیڑخانی شائد ساری دنیا جانتی ہے۔
تیسرا سوال آپ کا درست ہے۔شائد آپ کو علم ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کبھی کبھی بعض علاقوں کو ایسا رکھتی ہے کہ جس کو بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکے۔
عوام چاہیں بندوبستی علاقوں کے ہوں یا قبائلی علاقوں کے،فطرت انکی تقریبا ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔اسی لئے جس طرح جنوبی پنجاب یا کراچی میں مجرم و اغوا کار پناہ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح قبائلی عوام کی بھی مثال ہے۔
آپ کو علم ہوگا کہ عام عوام ایسے لوگوں کو پناہ نہیں دیتے،بلکہ اسی طرح کے اغواکار یا بد قماش لوگ ہی اپنے جیسوں کو پناہ دیتے ہیں۔یہ خاصیت صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ شائد پاکستان کے اندر بلکہ بین الاقوامی طریقہ کار ہے۔
الجنس یمیل الا لجنس
زبارداست کالم لکھنے پر اور ای دی پیز کی ساتھ جیسس تھارا کا راویےا دیکھنے مے ایا ، اور جس ترا ااپ نے درد بھرے انداز مے ھم تک پھنچا یا-ھم قباےلے اوام اپکی تا ھاےات کرزدار رھنےگے
جواب دیںحذف کریںمحترم مہمان
حذف کریںبلاگ پر خوش آمدید :)
تحریر کی پسندیدگی کا بہت شکریہ
پیارے دوست کوئی قرض کی بات نہیں،ایک بلاگر کا شائد یہی ذمہ ہوتا ہے کہ جو نظر آئے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرئے۔ایسے میں قبائلی عوام کیلئے لکھنا بھی تو ذمہ میں شامل ہی ہے۔
امید ہے آپ آئیندہ بھی بلاگ پر ہماری تحاریر پڑھنے کیلئے وقت نکالیں گے شکریہ
good awesome information, thanks
جواب دیںحذف کریںyaser
Discreet Soft