تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 2 مارچ، 2013

خوش قسمتی یا عقل مندی

ہفتہ, مارچ 02, 2013
کہتے ہیں کہ ملا نصیر الدین اپنے کھیت گئے تھے جانوروں کیلئے چارہ کاٹنے کیلئے ، واپسی پر گدھے پر کچھ اس طرح سے سوار ہو کر آرہےتھے کہ  خود گدھے کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے لیکن چارے کی بوری اپنے سر کے اوپر رکھی ہوئی تھی۔

راستے میں ایک دانا سے ملاقات ہوئی جو کہ کسی کام کے سلسلے میں گاؤں سے باہر پیدل جا رہے تھے۔

دانا نے پوچھا کہ ملا صاحب کہاں سے آرہے ہو؟

ملا صاحب نے بتایا کہ کھیت سے جانوروں کیلئے چارہ کاٹ کر گھر جا رہا ہوں۔ دانا نے پوچھا کہ ملا صاحب یہ چارے کی بوری اپنے سر کے اوپر کیوں رکھی ہے؟

ملا صاحب نے جواب دیا کہ دراصل  ایک تو میں گدھے کے اوپر بیٹھا ہوا ہوں ،اور اب اگر بوری بھی گدھے کے  پیٹھ پر رکھی تو یہ گدھے پر دوگنا وزن ہوجائے گا۔اسی لئے میں خود تو گدھے کی پیٹھ  پر بیٹھ گیا ،اور چارے کی بوری کا بوجھ اپنے سر پر اُٹھا لیا۔

دانا نے کہا کہ ملا صاحب  بوری آپکے سر پر ہو یا گدھے کی پیٹھ پر، وزن گدھے کو ہی اُٹھانا ہے۔اس لئے بیوقوفی مت کر و اور بوری کو بھی گدھے کی پیٹھ پر رکھ لو۔

ملا صاحب نے جواب دیا کہ آپکی اس عقل مندی پر میں اپنی بے وقوفی کو ترجیح دیتا ہوں ،کیونکہ اپکی عقل مندی آپکو پیدل لے جارہی ہے ،جبکہ میری بے وقوفی مجھے گدھے پر سوار کرکے لے جارہی ہے۔لھذا اپنی اس عقل مندی کو اپنے پاس ہی رکھو۔

یہ کہہ کر ملا نصیر الدین چلتے بنے۔اور دانا اپنا سا منہ لے کر خاموشی سے پیدل  چلنے لگا۔

یہ  فرق ہے خوش قسمتی اور عقل مندی کے درمیان۔عقل مند آدمی اکثر خوش قسمت کے ماتحت ہو کر رہ رہا ہوتا ہے۔

عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی ہیں۔کہتے ہیں کہ جب انہوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی ،تو انکے مواخات میں بننے والے انصاری بھائی نے  اپنا گھر آدھا تقسیم کرنے کا ارادہ کیا، اور ساتھ ہی انصاری کی دو بیویوں میں سے ایک بیوی کو بھی طلاق دینے  کا ارادہ کیا تاکہ عبد الرحمٰن بن عوف اسکے ساتھ نکاح کرکے  انصاری کے دئے گئے گھر میں رہ سکے۔

لیکن عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصاری کو ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ مجھے صرف مدینہ کے بازار کی راہ دِکھا دو۔

چنانچہ انصاری  نے اسکو بازار کی راہ دکھائی، عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار گئے ۔شام کو جب انصاری کے گھر لوٹے تو پہلے دن ہی کچھ تیل یا گھی کما کر لائے تھے،اور پھر چند دن بعد ہی عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی توسط سے شادی بھی کرلی۔

ہمارے علاقے کے میں ایک حاجی صاحب  ہیں۔انہوں نے چھٹی جماعت میں سکول چھوڑا تھا لیکن اب اسکا حال یہ ہے کہ وہ اپنی دولت کو سمیٹ نہیں پا رہا ، بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور عقل مند لوگ  اسکے ماتحت کام کرتے ہیں۔دو تین ملکوں تک اسکا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔

اسی طرح ہمارے علاقے میں ایک دوسرے  (ش) صاحب ہیں ،جن سے ایک ملاقات میں ہی اسکی بے وقوفی کا پتہ چل جاتا ہے۔بات کی سر پیر نہیں دیکھتا ،  بس منہ سے نکالتا ہے۔ نا   بڑوں کا خیال نا   چھوٹوں  کا خیال،    بس  جو دل میں آئے کہہ دیتا ہے۔نہ سکول پڑھا ہے نا مدرسہ ،لیکن قسمت اسکی دیکھو تو بندہ دھنگ رہ جائے۔ پشاور کے ہر ہوٹل میں وہ کھانے کا پروگرام کر چکا ہے۔کسی ہوٹل کے بارے میں معلومات کرنی ہو تو بس اس سے پوچھو۔ روز  چکن و مٹن کڑائیاں  کھاتا ہے۔

میں نے اسکا نام ٹینشن فری رکھا ہے۔کیونکہ  اگر کسی کام کی ٹینشن  حد سے زیادہ سوار ہوجائے تو  بس اسکے ساتھ (ٹو چین )ہوجاؤ ، غم بھی بھلا دئے گا اور  فری میں کھانا بھی خوب زبردست مل جائے گا۔

جبکہ اسکے دوسرے بھائی جو کہ جرگوں میں بیٹھتے ہیں اور نامور شخصیات ہیں،وہ د و وقت کی روٹی کی فکر میں ہوتے ہیں۔

اسی طرح چند دن قبل ایک صاحب ملے،انہوں نے کسی  یورپی ملک سے ایم فل کیا تھا ۔بے چارہ  4 سال پاکستان میں خوار ہوتا رہا لیکن اسکی روزی روٹی کا بندوبست نہ ہوسکا۔ آخر کا ر مجبور واپس بیرون ملک جانے کیلئے پر تولنے لگا ہے۔

اتنے قصے صرف  خوش قسمتی اور عقل مندی کے مابین فرق کو سمجھانے کیلئے  لکھے۔پشتو کے معروف شاعر عبد الرحمٰن بابا  اسی موضوع کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

عقل سہ کڑے ، بخت ترے اوغواڑا  رحمانہ

عقل مند  دہ بختورو  غلامان دی

ترجمۃ :ائے عبد الرحمان عقل کو چھوڑو ، اسکا سوال ہی مت کرو ،بلکہ خوش بختی و خوش قسمتی  اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو۔

کیونکہ عقل مند  لوگ خوش قسمتوں کے غلام ہوتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست ہیں ،وہ کہتے ہیں کہ میں اکثر اللہ تعالیٰ سے خوش قسمتی کا سوال کرتا ہوں۔

 ایک بار پشاور کے شیخ الحدیث مولانا حسن جان شھید رحمہ اللہ   نے ایک  واقعہ سُنایا  کہ ایک صحابی  ایک بار جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ و الہ و صحبہ وسلم کے پاس آئے،اور اپنی تنگ دستی کی شکایت کی۔

تو جناب رسول کریم صل اللہ تعالیٰ علیہ والہ و صحبہ وسلم نے  اس سے پوچھا کہ دنیا مانگتے ہو یا اخرت؟

صحابی نے  اخرت کو ترجیح دے دی  اور دنیا کا مطالبہ چھوڑ دیا۔

مولانا حسن جان شھید رحمہ اللہ   نے جب یہ واقعہ سُنایا تو  اخر میں فرمایا کہ اگر میں اس صحابی کی جگہ ہوتا تو میں یہ جواب دیتا کہ یا رسول اللہ   میرے لئے دنیا و اخرت  دونوں  اللہ تعالیٰ سے مانگو۔

مطلب یہ کہ  بندہ جب بھی دعاء مانگے  تو  اللہ تعالیٰ سے اپنی خوش بختی و خوش قسمتی کا ہی سوال کرئے،اور ساتھ میں عقل مندی  بھی مانگی جائے تو سونےپہ سہاگہ۔کیونکہ کہ خوش قسمتی کے ساتھ عقل مندی بھی عطاء ہوجائے تو   یہ ایک انتہائی حسین امتزاج  ہوگا۔

لھذا اپنی خوش قسمتی کا اللہ مانگتے وقت ہیں بھی یاد رکھا کریں ،کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ وہ دعاء سب سے تیز قبول ہوتی ہے ،جو ایک مسلمان اپنے غائب مسلمان کیلئے مانگے۔یعنی اسکے پیٹھ پیچھے اسکے لئے دعاء مانگتا رہے۔

9 تبصرے:

  1. زندگی میں کئی بار ایسا ہوا جب احساس ہوا کہ علم و عقل واقعی میں قسمت کے آگے بیکار ہیں مگر یہ بھی ایک سچ ہے کہ محنت و جدوجہد خوش قسمتی کو بالاآخر اپنے حق میں موڑ لینے کا سبب بن جاتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب ، بہت ہی زبردست حقیقت ہے، واقعی ہی کئی پڑھے لکھے، سمجھدار، عقلمند، دانا، دانشمند اور چالاک لوگ...... خوش نصیبوں کے نیچے کام کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ ایسے خوش نصیب صرف خوش نصیب ہی ہوتے ہیں باقی ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا. ... .


    بہت اچھی تحریر ہے .... جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  3. محنت کی اہمیت اور عظمت میں کوئی شک نہیں پر قسمت اور بخت بڑی چیز ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. I agree with Shoaib, we should not only bank on good luck, it is the hard work and dedication to do something that always give you result, beacuase Allah is Adil and doesnt waste someone's sincere effort.

    جواب دیںحذف کریں
  5. السلام علیکم
    مگر اللہ ہمیں قرآن میں بتاتا ہے کہ جسکو ہم خوش قسمتی کہتے ہیں وہ بھی اصل میں آزمائش ہی ہوتی ہے-

    فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ رَبِّيْۤ اَكْرَمَنِؕ۱۵
    وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهٗ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ رَبِّيْۤ اَهَانَنِۚ۱۶

    انسان کا حال یہ ہے کہ اس کا ربّ جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے ربّ نے مجھے عزت دار بنا دیا۔

    اور جب وہ اُس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اُس کا رزق اُس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا۔
    سورۃ الفجر

    یعنی یہ ہے انسان کا مادہ پرستانہ نظریہ حیات۔ اسی دنیا کے مال و دولت اور جاہ و اقتدار کو وہ سب کچھ سمجھتا ہے۔ یہ چیز ملے تو پھول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھے عزت دار بنا دیا، اور یہ نہ ملے تو کہتا ہے کہ خدا نے مجھے ذلیل کر دیا۔ گویا عزت اورذلت کا معیار اس کے نزدیک مال و دولت اور جاہ اقتدار کا ملنا یا نہ ملنا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے وہ نہیں سمجھتا یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمائش کے لیے دیا ہے۔ دولت اور طاقت دی ہے تو امتحان کے لیے دی ہے کہ وہ اسے پا کر شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔ مفلس اور تنگ حال بنایا ہے تو اس میں بھی اس کا امتحان ہے کہ صبر اور قناعت کے ساتھ راضی برضا رہتا ہے اور جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے، یا اخلاق و دیانت کی ہر حد کو پھاند جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے خدا کو کوسنے لگتا ہے۔(تفہیم القرآن)

    جواب دیںحذف کریں
  6. دیکھیں جی۔ اپنے پاک وطن میں بزنس مائنڈڈ لوگوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ ان کو خود غرض، ہوس پرست، مطلبی، پیسے کے غلام اور پتہ نہیں کیا کچھ کہ کے اپنی آل اولاد کو باور کرایا جاتا ھے کہ پیسہ کمانا اور خاص طور سے بہت سا پیسہ کمانا بہت بری بات ھے۔ لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ جب ایک آدمی کاروبار کرتا ھے تو ملازمیں کے روپ میں کام کرتے کئی لوگوں کے گھر پلتے ھیں۔
    آپ نے دنیا آخرت والی دینی مثالیں دیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ دین سود کو (یعنی اپنے پیسے کو دبا کر رکھنے) سے منع کرتا ھے اور اس پیسے سے تجارت کو اچھا گردانتا ھے۔ دین میں پیسہ کمانا ناپسندیدہ ھوتا تو حضرت عثمان سمیت تمام امیر تاجروں کو جبری طور پر روک دیا جاتا کہ بس ایک حد تک پیسے کماو۔ لیکن ایسا ھرگز نہیں ھوا۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. سلام علیکم ۔۔۔۔۔

    امید ھے خیریت ھے ھونگے ۔ ۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے شاید آپ نے کچھ نشانیان بتائی تھیں جس ھم قادیانیوں کو پہچان سکتے ہیں کہ فلاں بندہ قادیانی ھوگا اگر وہ باتیں اس میں پائی جائیں ۔۔۔۔۔ اگر دوبارہ شئیر کر دیں تو مہربانی ھوگی ۔۔

    جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  8. قادیانیوں کے بارئے میں معلومات کیلئے میرئے بلاگ کے سر ورق پر بکھرئے موتی والے لنک پر کلک کریں۔وہاں آپکو دیگر معلومات بھی ملیں گی۔باقی نشانیاں ذیل میں ہیں۔

    (قادیانیوں کی نشانیاں)

    اگر آپ دیکھیں کہ کوئی آدمی مذہبی گفتگو کے دوران حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ وہ آچکے ہیں
    یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارئے میں کہیں کہ وہ فوت ہوچکے ہیں ،
    یا پھر قادیانیوں کی تعریف کرئے اور کہے کہ احمدی تو بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں (کیونکہ قادیانی اپنے لئے قادیانی یا مرزائی لفظ استعا ل کرنا برا سمجھتے ہیں)

    یا اسکے گھر ، دوکان ،آفس یا گھڑی ،انگوٹھی ،لاکٹ پر یہ آیت پرنٹ ہے کہ
    (الیس اللہ بکاف عبدہ)

    یا یہ جملہ لکھا ہو
    (Love for all,Hate for non)

    یا یہ جملہ لکھا ہو کہ
    (محبت سب کیلئے اور نفرت کسی سے نہیں)

    تو سمجھ لیں کہ یہ قادیانی ہے ۔

    اگر آپکو کسی کے بارئے میں شک ہو تو اسکے سامنے مرزا قادیانی پر لعنت کریں ،بس آپکو خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔
    اور اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تو اس سائٹ سے مدد لیں۔

    جواب دیںحذف کریں

محترم بلاگ ریڈر صاحب
بلاگ پر خوش آمدید
ہمیں اپنے خیالات سے مستفید ہونے کا موقع دیجئے۔لھذا اس تحریر کے بارے میں اپنی قابل قدر رائے ابھی تبصرے کی شکل میں پیش کریں۔
آپ کے بیش قیمت خیالات کو اپنے بلاگ پر سجانے میں مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

۔ شکریہ

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں
UA-46743640-1