شیطان نے فلاسفہ کو دھوکا دیے کر ان پر اسطرح قابو پایا کہ یہ لوگ فقط اپنی رایوں اور عقلوں کے ہو رہے ،
اور اپنے خیالات کے مطابق گفتگو کی۔ انبیاء علیھم السلام کی طرف متوجہ نہ ہوئے ۔
ان میں سے بعض وہ ہیں جو دہریہ فرقہ کے ہم مشرب ہوئے اور کہتے ہیں کہ عالم کا کوئی صانع نہیں ہے۔
یحیٰ بن بشر نہاوندی نے ذکر کیا کہ ارسطاطالیس اور اسکے اصحاب عَالَم کیلئے صانع نہیں مانتے،
اور ان میں سے اکثر وہ ہیں جو کہ عالَم کیلئے علت قدیمہ ثابت کرتے ہیں۔
پھر عالَم کو قدیم کہتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ عالَم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ موجود اور اسکا معلول رہا۔ اسکے وجود سے پیچھے نہیں ہٹا ۔
اسکے ساتھ ساتھ ایسا رہا جیسا کہ معلول کے ساتھ علت رہتا ہے۔اور نور شمس کے ساتھ لازم ہے۔
اور یہ لزوم بالزمان نہیں بلکہ بالزات اور بالرتبہ ہے۔
اس گروہ کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ تم قدیم ارادہ کی جہت سے عالم کے حادث ہونے کا انکار کیوں کرتے ہو، کیونکہ ارادہ قدیمہ اس عالَم کے اسی وقت موجود ہونے کو چاہتا تھا جس وقت یہ عالَم پایا گیا۔
پھر اگر وہ کہیں کہ اس سے لازم آتا ہے کہ وجود باری تعالیٰ اور وجود مخلوقات میں ایک زمانہ ہو
تو ہم جواب دیں گے کہ زمانہ خود مخلوق ہے اور زمانہ سے پہلے کوئی زمانہ نہیں۔
اسی فرقہ کے مذاہب میں ہے کہ عالَم ہمیشہ رہے گا۔جس طرح اسکی ابتداء نہیں اسطرح اسکی انتہاء
بھی نہیں ہے۔جالینوس نے کہا کہ فرض کرو اگر افتاب قابل انعدام ہوتا تو اس قدر طویل مدت میں اس پر پژمردگی ظاہر ہوجاتی۔
اسکا جواب یہ ہے کہ بہت سی چیزوں میں پژمردگی نہیں آتی بلکہ یکایک فاسد ہوجاتی ہیں ۔
اور یہ بات تم نے کیسے کہی کہ آفتاب میں پژمردگی نہیں آئی۔فلاسفہ کے نزد آفتاب زمین سے ایک سو ستر گنا بڑا ہے، پھر اگر اس میں پہاڑوں کے برابر کم ہوجائے تو وہ حس سے معلوم نہ ہوگا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یاقوت اور سونا برسوں تک رہتے ہیں اور پھر فاسد ہوجاتے ہیں حالانکہ انکا نقصان محسوس نہیں ہوتا۔پس ظاہر ہوا کہ ایجاد اور اعدام اسی قادر کے ارادے سے ہےجو اپنی ذات میں تغیر سے پاک ہے۔اور اسکی کوئی صفت حادث نہیں ہے۔فقط اسکا فعل متغیر ہوتا ہے اور ارادہ قدیمہ سے متعلق ہے۔
فلاسفہ میں ایک قوم کا قول ہے کہ جب ہم نے عالَم کو ساکن ، متحرک ،مجتمع اور ،تفرق پایا تو سمجھے کہ عالَم حادث ہے اور حادث کیلئے کسی محدث کا ہونا ضروری ہے۔پھر دیکھا گیا کہ آدمی پانی میں گرتا ہے اور تیراکی نہ جاننے کے سبب صانع و مدبر سے فریاد کرتا ہے مگر وہ اسکی فریاد رسی نہیں کرتا اسی طرح اگر کوئی اگ میں گر جائے ، تو اس سے معلوم ہوا کہ صانع معدوم ہے۔(نعوذباللہ)
اکثر فلاسفہ اس طرف گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کچھ عِلم نہیں ،فقط اپنی ذات کا عِلم ہے۔حالانکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مخلوق کو اپنی ذات اور اپنے خالق دونوں کا علم ہے تو گویا مخلوق کا رتبہ (نعوذباللہ )خالق سے بڑا ہے۔اتنی سی بات سے اس عقیدہ کی رسوائی ظاہر ہوتی ہے۔غور کا مقام ہے کہ ان احمقوں کو ابلیس نے کیسا فریب دیا، باوجود یکہ یہ لوگ کمال عقل کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور انکا شیخ بوعلی سینا کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے نفس کا علم ہے اور اشیاء کلیہ کا علم ہے لیکن جزیات کا علم نہیں ہے۔
لیکن ا لحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس جماعت میں شامل کیا جو کہ ذات باری تعالیٰ سے جہل اور نقص دور کرتی ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے اِس ارشاد پر ایمان لائے کہ (الا یعلم من خلق ۔۔یعنی کیا اللہ کو مخلوق کا علم نہیں ) (و یعلم ما فی البر والبحر۔۔ یعنی اللہ کو بحر و بر کی ہر چیز کا علم ہے) کوئی پتہ درخت سے نہیں گرتا مگر اللہ تعالیٰ کو اسکا علم ہوتا ہے۔
پھر فلاسفہ نے یہ کام کیا کہ مرنے کے بعد اٹھنے اور روحوں کو بدنوں میں لوٹائے جانے سے اور جنت و دوزخ کے جسمانی ہونے سے انکار کردیا اور کہتے ہیں کہ یہ اجسام فقط مثال کیلئے بیان ہوئے ہیں اصل سزا و جزا فقط نفس کو ملے گی جسم کو نہیں۔
حالانکہ ہمارے پیارے نبی صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن اجساد قبروں سے اُگیں گے۔اور اسی سلسلے میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت حضور صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نقل ہے جو کہ بخاری ومسلم میں بھی ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی برسائے گا تو تم اس طرح اُگو گے جس طرح سبزہ اُگتا ہے اور فرمایا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہوجاتی ہے مگر صرف ایک ہڈی باقی رہتی ہے اور وہ ہڈی دم گزے (کمر کا اخری حصہ) کی ہے۔اسی سے قیامت کے دن خلقت مرکب ہوگی۔
ابلیس نے ہمارے مذہب والوں میں سے چند اقوام پر تلبیس کی اور ان پر انکی ذکاوت اور ذہن اور عقلوں کے راہ سے داخل ہوا۔ انکو سمجھایا کہ فلاسفہ ہی کی پیروی صواب ہے، کیونکہ ان لوگوں سے ایسے افعال صادر ہوئے جو کہ نہایت ذکاء وکمال عقل پر دلالت کرتے ہیں۔یہ لوگ ہمیشہ سقراط ، جالینوس، بقراط، افلاطون و ارسطاطالیس کی حکمت میں پڑے رہتے ہیں ۔ حالاکہ ان علماء پر فقط علوم ہندسہ ومنطق وطبیعات کا دارومدار ہے ، اور انہوں نے اپنی عقلوں سے پوشیدہ امور نکالےہیں۔ لیکن الٰہیات میں انکی گفتگو سے بات گڈمڈ ہوئی اور ان میں اختلاف پڑا اور حساب و ہندسہ میں اختلاف نہ ہوا۔
الٰہیات میں انکے خلط ملط ہونے کا سبب یہ ہے کہ بشری قوتیں علوم الٰہیہ کو فقط اجمالی طور پر ادراک کرسکتی ہے اور اس ادراک کیلئے شرائع کی جانب رجوع کرناپڑتا ہے۔ اور ان متاخرین کیلئے امثال میں بیان کیا گیا کہ یہ حکماء متقدمین صانع کے منکر تھے اور شرائع کو دور کردیتے تھے بلکہ انکو فریب اور دھوکہ دہی سمجھتے تھے۔پس متاخرین نے انکے خیالات کی تصدیق کی اور انہوں نے شعار دین کو چھوڑ کر نمازوں کو مہمل اور بیکار سمجھا۔ممنوعات کے مرتکب ہو کر حدود شرعیہ کو ناچیز جانا اور اسلام کی پابندی ترک کردی۔
ان لوگوں کے کفریات کی کوئی سند بھی تو نہیں ہے بجز اسکے کہ فلاسفہ حکماء تھے۔ افسوس انکو خبر نہیں کہ انبیاء علیھم السلام حکماء بھی ہیں اور حکماء سے زیادہ بھی ہیں۔
اور ان لوگوں کو جو حکماء سے انکار صانع کی خبر ملی ہے تو محض دروغ و محال ہے۔
ان میں سے چند کے علاوہ اکثر دہریہ کے تابع ہوگئے ہیں جن کی فہموں کا فساد ظاہر ہوچکا ہے۔
ہم نے اپنی امت کے فلسفی مزاج لوگوں میں سے اکثر کو دیکھا کہ انکی فلسفہ دانی سے بجز سرگردانی کے کچھ حاصل نہیں ہوا۔اب نہ وہ مقتضائے فلسفہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی مقتضائے اسلام جانتے ہیں۔بلکہ بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو نماز روزہ تو ادا کرتے ہیں اور پھر خالق اور نبوتوں پر اعتراض شروع کردیتے ہیں۔اور حشر اجساد کے انکار میں بحث کرتے ہیں۔تم اکثر احمقوں کو دیکھتے ہو کہ جب عقائد کے باب میں غور کرتے ہیں تو فلسفیانہ انکار کی گمراہیوں میں پڑھ جاتے ہیں۔
پس ہم اللہ تعالیٰ سے التجاء کرتے ہیں کہ ہم کو ہمارے مذہب پر قائم رکے اور ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچائے۔ آمین۔
اگر ان چیزوں کے بیان سے ابلیس کی تلبیس مقصود نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے سبب سے اس بیان سے روگردانی بہتر ہوتی ۔ایسے ناشائستہ عقائد کا ذکر کرنا زیبا نہیں۔لیکن ہم نے اسکے ذکر کرنے میں فائدہ کی صورت میں بیان کردی۔
(علامہ ابن جوزی کے مضمون کا خلاصہ)
جواب دیںحذف کریںشاندار انتخاب ہے. علامہ جوزی رحمہ الله علیہ کی تلبیس ابلیس ضرور ہر گھر میں ہونی چاہیے.
جواب دیںحذف کریں۔جواد صاحب پسندیدگی کا شکریہ
[...] فلاسفہ اور انکے تابعین پر شیطان کی تلبیس [...]
جواب دیںحذف کریں